تل ابیب/واشنگٹن/نیویارک/ریاض/برلن/غزہ: اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایک بار پھر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی۔
ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے امریکی اتحادی ملک قطر میں حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے پر تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس تنظیم کو کہیں بھی محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسرائیل کاٹز نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ اسرائیل کا سلامتی کا نظریہ واضح ہے، اس کی پہنچ ہر جگہ دشمنوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے، ان کیلئے کوئی جگہ نہیں کہ وہ چھپ سکیں۔وزیر دفاع نے اس پر کوئی گفتگو نہیں کی کہ دوحہ میں اسرائیلی حملے میں کتنے حماس رہنما شہید ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس نے بھی 7 اکتوبر 2023ء کے قتل عام میں حصہ لیا اسے سزا ملے گی۔اسرائیل کاٹز نے مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ حماس جنگ کے خاتمے کیلئے اسرائیل کی شرائط قبول کرے جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور تنظیم کا غیر مسلح ہونا شامل ہے بصورت دیگر ان کا صفایا کر دیا جائے گا اور غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا۔
دریں اثناء امریکا میں تعینات اسرائیلی سفیر یچیل لیٹر نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی سفیر یچیل لیٹر نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ہم انہیں اگلی بار نہیں چھوڑیں گے اور اپنا ہدف حاصل کر کے رہیں گے۔
فاکس نیوز سے گفتگو میں اسرائیلی سفیر یچیل لیٹر نے کہا کہ حماس کی قیادت اس وقت نوٹس پر ہے جنہیں آئندہ نشانہ بنایا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا اسرائیل مزاحمتی تنظیم کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا پر انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس بار کامیابی نہیں ملی تو اگلی بار ضرور حاصل کر لیں گے۔
قطر پر حملے کے بعد امریکا اور خلیجی مملکت کی طرف سے اسرائیل پر کی جانے والی مذمت کا حوالہ دیتے ہوئے سفیر نے کہا کہ ابھی ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن جلد اس پر قابو پا لیں گے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا ہے کہ حماس کے رہنما اب دنیا میں کسی بھی جگہ محفوظ نہیں رہیں گے۔
یہ بیان انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کو فضائی حملوں میں نشانہ بنانے کے بعد دیا۔یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ دن ختم ہو گئے جب حماس کے رہنما ناقابلِ دسترس سمجھے جاتے تھے۔ اب کسی کو ایسی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔
نیتن یاھو نے کہا کہ انہوں نے اس کارروائی کا حکم قاتلوں سے حساب برابر کرنے اور اسرائیل کے شہریوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے دیا۔
اسی دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ غزہ کی جنگ فوراً ختم ہو سکتی ہے اگر حماس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز قبول کر لے۔ نیتن یاھو کے مطابق اسرائیل نے اصولی طور پر اس تجویز کو تسلیم کر لیا ہے، جس کا آغاز تمام قیدیوں کی فوری رہائی سے ہونا چاہیے۔
ادھر ایک رپورٹ کے مطابق دوحہ پر حملہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دائرہ کارمیں تیزی سے اضافے کا مظہر ہے جو حالیہ ہفتوں میں 6مسلم ممالک تک پھیل چکا ہے۔ان میں فلسطین، لبنان، شام، یمن، ایران اور تیونس شامل ہیںجہاں اسرائیل مختلف نوعیت کے حملے کرچکا ہے، تیونس میں ایک اسرائیلی ڈرون نے غزہ جانے والے امدادی قافلے کوبھی نشانہ بنایا تھا۔
اسرائیلی فضائیہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے رہائشی علاقے پرحملہ کرکے وہاں موجود حماس کے سیاسی شعبے سے وابستہ افراد کونشانہ بنایا۔الجزیرہ کے مطابق یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب حماس کے نمائندے قطرمیں امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے پربات چیت میں مصروف تھے۔
یہ حملہ اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل بیرون ملک موجود حماس رہنماؤں کو بھی نشانہ بنائے گا جبکہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)نے قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دوحہ پر فضائی حملے کو قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی قرار دیدیا۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ جنگ کے تمام فریقین کو مستقل جنگ بندی کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ اس کے امکانات کو تباہ کرنا چاہیے۔
ادھر او آئی سی نے بھی قطری دارالحکومت پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔تنظیم نے عالمی برادری خصوصاً سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور اسرائیل کو خطے میں جاری خطرناک جارحیت ختم کرنے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا پابند بنائے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مملکت اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے ساتھ قطر کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔سعودی خبررساں ایجنسی کے مطابق حکومت نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے مسلسل جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
ساتھ ہی عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔دوسری جانب سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
انہوں نے قطر پر اسرائیلی حملے کو مجرمانہ فعل اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔سعودی ولی عہد نے یقین دہانی کرائی کہ مملکت قطر کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور دفاع و خودمختاری کے تحفظ میں اس کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
جرمنی نے بھی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اور ناقابل قبول قراردیا ہے۔چینی میڈیا کے مطابق یہ بات جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے گزشتہ روز امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ فون کال کے دوران کہی۔
فریڈرک مرز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنگ کو پورے خطے تک نہیں پھیلانا چاہیے۔ بیان میں کہا گیا کہ جرمن حکومت صورتحال کے حوالے سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ جرمن وزیر خارجہ جوہان وڈے فل نے بھی اسرائیل کے حملے کو ناقابل قبول قرار دیا اور خبردار کیا کہ اس سے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے ہونے والے مذاکرات کو خطرہ لاحق ہو گا۔
انہوں نے پریس بیان میں یرغمالیوں خاص طور پر جرمن شہریوں کی زندگی اور حفاظت کے لئے تشویش کا اظہار کیا۔غزہ میں فلسطینیوں کی خونریزی نہ تھم سکی۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری سے 24 گھنٹے میں مزید 52 فلسطینی شہید ہوگئے، شہداء میں 7 امداد کے منتظر فلسطینی بھی شامل ہیں، مغربی کنارے میں سرچ آپریشن کی آڑ میں دو فلسطینی بچے شہید ہوگئے، شہداء کی تعداد 64 ہزار 605 ہوگئی،1 لاکھ 63 ہزار 319 افراد زخمی ہو چکے۔
غزہ کی وزارت صحت نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کے مسلط کردہ قحط اور سخت محاصرے کی وجہ سے بھوک اور غذائی قلت کے باعث مزید 5 فلسطینی شہید ہوگئے۔
وزارت صحت نے ایک مختصر بیان میں بتایا کہ غذائی قلت اور بھوک سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 404 ہو گئی ہے جن میں 141 معصوم بچے شامل ہیں۔
ادھراسلامی تحریک مزاحمت حماس کے سیاسی دفتر کے رکن سہیل ہندی نے کہا ہے کہ دوحہ میں تحریک کی قیادت کے وفد کی قیام گاہ کو قابض اسرائیل کے حملے کا نشانہ بنانا انتہائی خطرناک اضافہ ہے جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ دشمن صہیونی ریاست جنگ بندی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔
سہیل ہندی نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میںبتایا کہ تحریک کے رہنماؤں کا خون کسی فلسطینی بچے یا خاتون کے خون سے مختلف نہیں اور اغتیالات کی یہ پالیسی تحریک کو اپنے عوام اور اپنی مقدس جدوجہد کے دفاع سے باز نہیں رکھ سکتی۔
ہندی نے زور دے کر کہا کہ فلسطینی عوام آزاد قوم ہیں جو نہ تو سفید جھنڈا بلند کریں گے اور نہ ہی ہتھیار ڈالیں گے۔انسانی حقوق کی ایک جامع رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ میں جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران ک17 ہزار 902 فلسطینی طلبہ کو شہید کر دیا۔
یہ اعداد و شمار بدھ کو مرکز المیزان برائے انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئے۔تیسرے سال بغیر تعلیم” کے عنوان سے شائع اس رپورٹ میں اکتوبر2023ء سے ستمبر2025ء تک غزہ کی تعلیمی صورتحال اور طلبہ پر اس کے تباہ کن اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے منصوبہ بندی کے تحت تعلیمی نظام کو نشانہ بنایا۔ اس دوران 16 ہزار 879 اسکول کے طلبہ و طالبات کو شہید کیا گیا۔ جامعات کے 523 طلبہ و طالبات کو بھی شہید کیا گیا۔ اسی طرح 830 اساتذہ اور تعلیمی عملے کے افراد جبکہ 193 ماہرین، پروفیسرز اور محققین کو شہید کیا گیا۔
یوں غزہ کے تعلیمی ڈھانچے سے وابستہ کل شہداء کی تعداد 17 ہزار 902 تک جا پہنچی۔قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں 95 فیصد تعلیمی ادارے براہ راست یا بالواسطہ متاثر ہوئے۔ 662 اسکول کی عمارتوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا اور 116 اسکول جزوی طور پر تباہ ہوئے۔
کل تعلیمی اداروں میں سے 90 فیصد کو دوبارہ تعمیر اور بحالی کی فوری ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال انتہائی المناک ہے۔ ہزاروں طلبہ اور اساتذہ یا تو شہید کر دیے گئے یا جسمانی و نفسیاتی طور پر بری طرح متاثر ہوئے۔ تمام اسکول اور جامعات یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا بے گھر خاندانوں کے لیے پناہ گاہوں میں بدل دی گئی ہیں۔
ادھریورپی کمیشن کی صدر ارسولا فان دیر لائن نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین کے انتظامی بازو نے قابض اسرائیل کو دی جانے والی تمام ادائیگیاں اس کی جنگ اور غزہ پر اس کے مجرمانہ رویے کے سبب معطل کر دی ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ میں اسٹرابورگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم قابض اسرائیل کے ساتھ اپنی دوطرفہ امداد معطل کر رہے ہیں۔ ان تمام شعبوں میں ادائیگیاں روک دی جائیں گی۔ البتہ یہ اقدام سول سوسائٹی کے ساتھ ہمارے کام یا ”یاد فاشم” میوزیم پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی کمیشن جلد ہی قابض اسرائیل کے انتہا پسند وزیروں پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دے گا اور یورپی یونین اور قابض اسرائیل کے درمیان شراکت داری کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی بھی تیاری ہے جس کا ہدف تجارتی معاملات ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی کمیشن آئندہ ماہ فلسطینی عوام کے لیے ایک ڈونرز گروپ قائم کرے گا جس میں غزہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے ایک خصوصی فنڈ بھی شامل ہوگا۔