رپورٹ: علی ہلال
امریکا نے سات اکتوبر 2023ء سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی جو حمایت شروع کی تھی اُس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اِس وقت جب دنیا بھر میں غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، ایسے میں امریکی ادارے صہیونی ریاست کو اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروارہے ہیں۔ اِس وقت اسرائیلی قابض ریاست ایک بڑے امریکی وفد کے استقبال کی تیاری کر رہی ہے جس میں 250 ارکانِ کانگریس شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وفد میں ہر امریکی ریاست سے پانچ نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ دورہ ایک ہفتے پر محیط ہوگا اور اسے اب تک کا سب سے بڑا امریکی وفد قرار دیا جا رہا ہے جو ایک ساتھ مقبوضہ علاقوں میں پہنچ رہا ہے۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہایوم کے مطابق وفد کی صدر اسحاق ہرتزوگ، وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو، وزیرِ خارجہ جدعون ساعر اور کنیسٹ کے اسپیکر امیر اوحانا سے باضابطہ ملاقاتیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ وفد کو سکیورٹی، معاشی اور سماجی صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف مقامات کا دورہ بھی کرایا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق امریکی ارکانِ کانگریس غزہ پٹی کے قریب واقع تباہ شدہ کیبوتس کا بھی معائنہ کریں گے جہاں ان کی ملاقات آبادکاروں اور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے والے امریکی فوجیوں سے ہوگی۔ دورے کے اختتام پر وفد کے شرکاء اوفاکیم شہر میں یہودی نیشنل فنڈ کے جنگل میں 50 درخت لگائیں گے، ہر ریاست کی نمائندگی میں ایک درخت، جو دونوں فریقوں کے درمیان شراکت داری کی علامت ہوگا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ اس دورے کو ایک اسٹریٹیجک موقع سمجھتی ہے کیونکہ امریکی ریاستوں کے قانون ساز اپنے ملکوں میں موثر قانون سازی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ اسرائیل کے حق میں اقدامات کرسکتے ہیں، جن میں بائیکاٹ (BDS) اور سرمایہ کاری کے انخلا کی مہمات کا مقابلہ، انسدادِ سامیت قوانین اور اقتصادی تعاون کی حمایت شامل ہے۔
انتہاپسند یہودی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کو امید ہے کہ یہ دورہ اسرائیل کی مخالف قانون سازی کو روکنے اور امریکی میدان میں قابض اسرائیل کے لیے حمایت بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق اِس وفد میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں جن میں سے بیشتر پہلی بار اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے سیاستدان بھی ہیں جو اپنے کیریئر کے آغاز میں ہیں اور مستقبل میں ریاستی یا وفاقی سطح پر قیادت کے مناصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔
یہ دورہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی ایک وسیع سفارتی مہم کا حصہ ہے جس کے تحت رواں سال کے اختتام سے قبل 400 بین الاقوامی وفود کو مدعو کرنے کا منصوبہ ہے، جن میں پانچ ہزار سے زائد افراد شریک ہوں گے۔ اس مہم کا مقصد دنیا بھر میں اسرائیل کی ساکھ کو بہتر بناناہے۔ غزہ میں قتل عام سے صہیونی ریاست کو دنیا بھر میں جس بدنامی اور نفرت کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس مہم کا مقصد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اپنے موقف کو پیش کرنا اور غیرملکی فیصلہ سازوں کے ساتھ روابط کو مستحکم کرنا ہے۔ اس دوران وزارتِ خارجہ میں ایک مجوزہ سرکاری بحث موخر کر دی گئی جو اسرائیل مخالف مہمات کا پیشگی جواب دینے کے لیے ایک نئی سفارتی ڈھانچے کے قیام پر ہونی تھی۔ یہ بحث اب آئندہ ہفتے متوقع ہے۔اخبار نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر لکھا کہ تاریخ کا سب سے بڑا امریکی وفد صرف شرکا کی تعداد کا ریکارڈ نہیں بلکہ یہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو گہرا کرنے کی ایک اسٹریٹیجک کوشش بھی ہے، ایسے وقت میں جب اسرائیل کے لیے بین الاقوامی حمایت پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔اسی دوران قابض ریاست میں متعین امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا کہ ’اسرائیلی فلسطینی تنازعہ خیر و شر کی جنگ کا حصہ ہے‘۔
امریکی سفیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں مزید کہا: ’آپ اسرائیل کی حکومت سے اتفاق کرنے کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں کھڑے، آپ اسرائیل کے ساتھ اس لیے ہیں کہ وہ حضرت ابراہیم کی الہامی روایت کا دفاع کرتا ہے‘۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قابض اسرائیل بڑھتی ہوئی تجارتی اور سفارتی مقاطعہ مہم کا سامنا کر رہا ہے۔ بائیکاٹ اور سرمایہ کاری کے انخلا کی تحریکیں وسعت اختیار کر چکی ہیں۔ کئی ممالک نے اس کے ساتھ فوجی اور اقتصادی تعلقات روک دیے ہیں جبکہ عالمی اداروں میں اس کے غزہ میں جرائم کی تحقیقات کے لیے دباو بڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے تل ابیب کو مجبور کیا ہے کہ وہ امریکی قانون سازوں کے ساتھ تعلقات کو ایک اسٹریٹیجک دفاعی حصار کے طور پر مضبوط کرے۔امریکی پشت پناہی کے ساتھ قابض اسرائیلی فوج 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے جس میں قتلِ عام، بھوک، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہے۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے جاری ہے۔ اس نسل کشی کے نتیجے میں اب تک 64 ہزار 455 فلسطینی شہید، 1 لاکھ 62 ہزار 776 زخمی ہوئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس کے علاوہ 9 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور قحط نے مزید 387 فلسطینیوں کی جان لے لی ہے جن میں 138 بچے شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ’بی ڈی ایس‘ ایک بین الاقوامی اقتصادی مہم ہے جو 9 جولائی 2005ء کو 171 فلسطینی غیرسرکاری تنظیموں کی اپیل پر شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کا مقصد اسرائیل کا بائیکاٹ، سرمایہ کاری کا انخلا اور اس پر پابندیاں عائد کرنا ہے، جب تک کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کی پابندی نہ کرے۔ مہم کے بڑے اہداف میں اسرائیلی قبضے اور تمام عرب علاقوں میں اس کی نوآبادیات کا خاتمہ اور علیحدگی کی دیوار کو گرانا، اسرائیل کے اندر رہنے والے فلسطینی عرب شہریوں کے بنیادی حقوق کا اعتراف اور انہیں مکمل مساوات کی فراہمی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنے گھروں اور املاک کی طرف واپسی کے حق کا احترام، تحفظ اور فروغ، جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 میں واضح طور پر درج ہے۔ یہ مہم عالمی سطح پر اسرائیل پر دباو بڑھانے اور فلسطینی عوام کے قانونی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ایک بڑی کوشش سمجھی جاتی ہے۔
