مجاہدین کے حملے،4اسرائیلی فوجیوں سمیت10ہلاک،6غداروں کو پھانسی

مقبوضہ بیت المقدس/غزہ/برسلز/نیویارک/دبئی/لندن/تل ابیب:اسرائیلی میڈیا کے مطابق مشرقی یروشلم کے مضافات میں فائرنگ کے واقعے میں کم از کم 6 اسرائیلی ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔

ایمرجنسی سروس میگن ڈیوڈ اڈوم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پچاس سالہ شخص اور تین افراد شامل ہیں جن کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔ طبی ٹیموں نے شدید زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جبکہ کئی زخمیوں کو جائے وقوعہ پر طبی امداد دی گئی۔

اسرائیلی اخبار ہیرٹز کے مطابق دو مشتبہ حملہ آوروں کو موقع پر موجود ایک سیکورٹی اہلکار نے مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ابتدائی اندازے کے مطابق دونوں حملہ آور مغربی کنارے کے رہائشی تھے اور انہوں نے بس اور بس اسٹاپ پر فائرنگ کی۔واقعے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو جائے وقوعہ پر پہنچے اور سیکورٹی حکام کے ساتھ ہنگامی اجلاس کیا۔

اس موقع پر انہوں نے سیکورٹی اداروں کے سربراہان کو معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔دوسری جانب حماس نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن کہا کہ یہ حملہ اسرائیلی جارحیت کا ”قدرتی ردعمل”ہے۔ اسی طرح اسلامی جہاد نے بھی اسے صہیونی ریاست کے جرائم کا جواب قراردیا۔

ادھر حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کی کارروائی میں اسرائیلی فوج کے چار اہلکار ہلاک ہوگئے۔الجزیرہ نے اسرائیلی فوجی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پیر کی صبح شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں ایک ٹینک دھماکے کی زد میں آیا جس کے نتیجے میں اس کے عملے کے تمام اہلکار مارے گئے۔

اسرائیلی ویب سائٹس کے مطابق یہ کارروائی فلسطینی مزاحمت کاروں نے صبح تقریباً 5 بجے کی۔ مزاحمت کاروں نے دھماکا خیز مواد ٹینک پر پھینکا گیا اور ٹینک کمانڈر پر فائرنگ کی گئی جس کے باعث ٹینک میں آگ بھڑک اٹھی۔

رپورٹس کے مطابق یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب اسرائیلی افواج پہلے ہی ہائی الرٹ پر تھیں اور غزہ شہر پر قبضے کی تیاری کر رہی تھیں۔القسام بریگیڈز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے قابض افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے ‘آپریشن عصائے موسیٰ’ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت گزشتہ دنوں غزہ کے جنوبی علاقے زیتون اور شمالی غزہ کے علاقے جبالیا میں کئی ٹینکوں، گاڑیوں اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

دریں اثناء اسرائیل نے غزہ کونشانے پر لے لیا، شہر کی ایک اور بلند عمارت کو تباہ کردیا، 3روز میں3عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنادیاگیا جبکہ اسرائیلی حملوں میں مزید87 فلسطینی شہید اور 409زخمی ہوگئے، شہداء میں امداد کے منتظر 16 فلسطینی بھی شامل ہیں، بھوک اور قحط سے مزید 6 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔

شہدا کی تعداد 64 ہزار سے بڑھ گئی،1 لاکھ 62 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، غزہ میں خوراک، صاف پانی اور ادویات نایاب ہوگئیں، جنگ بندی کیلئے اسرائیل نے ایک بار پھر حماس سے ہتھیار ڈالنے کی شرط رکھ دی، یرغمالیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جنگ روکے اور غزہ سے نکل جائے تو تمام یرغمالی رہا کر دیں گے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر کوئی یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ اسرائیلی میری شرائط مان چکے ہیں، اب حماس کی باری ہے ان کی شرائط کو قبول کرے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ شرائط قبول نہ کرنے پر حماس کو خطرناک نتائج سے خبردار کررہا ہوں اور یہ میری آخری وارننگ ہے اس کے بعد کوئی وارننگ نہیں دوں گا۔

بین الاقوامی میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فلسطینی تنظیم حماس نے گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی آخری وارننگ کے بعد فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے اپنی شرائط واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کا فلسطین سے مکمل انخلا اور غزہ کی انتظامیہ کے لیے ایک آزاد فلسطینی کمیٹی کا قیام شامل ہونا چاہیے۔

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اپنے عوام پر جاری جارحیت کو روکنے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہمیں امریکی فریق سے کچھ تجاویز موصول ہوئی ہیں جو جنگ بندی کے معاہدے کی طرف لے جا سکتی ہیں، ہم ثالثوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ ان تجاویز کو ایک جامع معاہدے میں ڈھالا جا سکے۔

اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکی صدر کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز قبول کرتے ہیں۔غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیرِ خارجہ گدون ساعر نے کہا کہ ان کا ملک مکمل معاہدے کے لیے تیار ہے۔

اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ معاہدے میں غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا ہتھیار ڈالنا شامل ہوگا۔غزہ کے سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے بتایا ہے کہ قابض اسرائیل کی فوج نے 50 سے زائد عمارتیں مکمل طور پر تباہ کر دی ہیں جبکہ 100 دیگر عمارتیں جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں جن میں بلند و بالا عمارتیں شامل ہیں جہاں ہزاروں شہری رہائش پذیر تھے۔

بصل نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ قابض اسرائیل خاص طور پر ان عمارتوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو خیمہ نشین فلسطینیوں اور امدادی مراکز کے قریب ہیں جس کے نتیجے میں 200 سے زائد خیمے تباہ ہو گئے۔ یہ تباہی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصدجبری بے دخلی کو فروغ دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلسل بمباری نے غزہ شہر کی باقی مساجد اور کھیل کے میدانوں کو بھی نشانہ بنایا اور شہریوں کی مدد کے لیے سول ڈیفنس کی ٹیموں کو زرقا علاقے، التفاح میں ملبے تلے پھنسے شہریوں کی مدد کی اپیلیں موصول ہوئیں، جہاں ایک عمارت کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔

بصل نے تصدیق کی کہ سول ڈیفنس کی ٹیمیں مسلسل بمباری کی شدت کے باعث تھک چکی ہیں۔ علاوہ ازیں بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ عوامی ریلا غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور قابض اسرائیل کی جاری جارحیت کے خلاف ایک عظیم مظاہرہ تھا۔

نامہ نگاروں کے مطابق 200 سے زائد تنظیموں اور اداروں کی اپیل پر یہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں70ہزارافرادنے شرکت کی۔شرکاء نے سرخ کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر قابض اسرائیل کی درندگی، بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے نعرے درج تھے۔

مظاہرین نے زور دیا کہ قابض اسرائیل پر فوری طور پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں اور غزہ پر مسلط جنگ بند کرائی جائے۔ادھرغزہ میں مزاحمت کی سیکورٹی کے ایک رہنما نے تصدیق کی کہ قابض اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کرنے اور غدار ی کے مجرم قرار دیے گئے 6 خائنوں کو پھانسی دے دی گئی۔

اس کی تصدیق مزاحمتی رہنما نے المجد سیکورٹی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کی جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے نائب سیکرٹری جنرل اور ہنگامی امداد کے کوآرڈی نیٹر ٹام فلیچر نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کے پھیلاؤ کو روکنے کا امکان نہایت کم رہ گیا ہے اور یہ معمولی سی امید بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

ٹام فلیچر نے گذشتہ شب جاری اپنے بیان میں واضح کیا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی موت، تباہی، بھوک اور جبری بے دخلی وہ نتائج ہیں جو قابض اسرائیل کے ایسے فیصلوں سے جنم لے رہے ہیں جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی نظرانداز کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ قابض اسرائیل نے حال ہی میں شہر غزہ کے رہائشیوں کے لیے نیا جبری انخلا کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا ہے جب صرف دو ہفتے قبل غزہ میں قحط کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی اور اسی دوران قابض اسرائیل نے بڑے پیمانے پر عسکری یلغار بھی جاری رکھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ستمبر کے آخر تک ایک معمولی سی کھڑکی باقی ہے جس کے ذریعے قحط کو دیر البلاح اور خان یونس تک پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے مگر یہ امید لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہی ہے۔ادھر اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ہم مغربی کنارے کو اسرئیل میں ضم کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔

عرب میڈیا کے مطابق اردن کے شاہ عبداللہ نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی کوششوں پر تبصرہ کیا۔شاہ عبداللہ نے کہا کہ مغربی کنارے پر اسرائیل کے ممکنہ قبضے اور وہاں سے فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کے منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔

شاہ عبداللہ نے غزہ سے بھی فلسطینیوں کے بیدخل کیے جانے کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔متحدہ عرب امارات نے مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کو پہلے ہی ریڈ لائن قرار دے دیا ہے۔ادھر برطانیہ میں فلسطین ایکشن پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 890 ہو گئی۔

لندن سے میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے گزشتہ روز تک 425 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔ بیشتر گرفتار افراد نے فلسطین میں قتلِ عام اور نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا اور اس کی مذمت کی تھی۔ بیشتر گرفتار افراد نے فلسطین ایکشن کی حمایت میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کو تین وقت کا معیاری کھانا فراہم کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اپنے جاری کردہ حکم میں کہا کہ حکومت نے فلسطینی قیدیوں کو بنیادی خوراک سے محروم رکھا ہوا ہے، معاملہ آسائش کا نہیں بلکہ بقا کے بنیادی تقاضوں کا ہے۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دو اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کی درخواست پر سنایا ہے جنہوں نے اپنی درخواست میں انکشاف کیا تھا کہ قیدیوں کو خوراک کی کمی کے باعث بھوک اور غذائی قلت کا سامنا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی حراست میں61فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں17سالہ نوجوان بھی شامل ہے جو بھوک کے باعث انتقال کر گیا تھا۔

ادھرغزہ جنگ کے معاملے پر اسرائیل پر تنقید کرنے والے سینئر ہسپانوی حکام پر اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔تل ابیب سے اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل اسپین کی نائب وزیر اعظم اور وزیر محنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اسپین کی نائب وزیر اعظم اور وزیر محنت یولاندا ڈائز پر اسرائیل میں داخلے پر بھی پابندی ہوگی، یہ پابندیاں اسپین کی وزیر برائے یوتھ اینڈ چلڈرن پر بھی لگائی جائیں گی۔