رپورٹ: علی ہلال
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے سات سو دن پورے ہوگئے لیکن عالمی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی علمبردار ممالک ہنوز اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے رواں ہفتے اسرائیل کا دورہ کرکے صہیونی قیادت کو یقین دہانی کروادی ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ مضبوط طریقے سے کھڑا ہے۔متحدہ عرب امارات نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو سخت وارننگ دے دی ہے۔ عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ بہت مضبوط تجارتی تعلقات ہیں۔ 2020ء میں امارات نے ابراہام اکارڈ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا ہے لیکن گزشتہ منگل کو اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضے کا عزم ظاہر کیا جس پر متحدہ عرب امارات کو بھی خاموشی توڑنی پڑی۔ متحدہ عرب امارات کی نائب وزیر خارجہ نے اسرائیل کو وارننگ دیتے ہوئے کہاہے کہ فلسطینی علاقہ مغربی کنارہ امارات کے لیے سرخ لکیر ہے۔ ہم 2020ء میں اسرائیل کے ساتھ اس امید پر معاہدہ ابراہام کا حصہ بنے تھے کہ ہم فلسطینی عوام کی مدد کرسکیں۔ اگر اسرائیل نے مغربی کنارے کو قبضہ کرنے کی کوشش کی تو معاہدہ ابراہام برقرار نہیں رہے گا۔ متحدہ عرب امارات کے بعد قطری وزارت خارجہ کابھی خاصا سخت بیان سامنے آیا ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے الشرق الاوسط نے لکھا ہے کہ نیتن یاہو کی انتہا پسندانہ پالیسیوں سے عرب ممالک کی مشکلات اور آزمائش میں اضافہ ورہاہے۔
خیال رہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 700 دن گزر گئے لیکن اسرائیلی جنگی مشین اب بھی غزہ کی سرزمین اور فضاوں میں ہر چیز کو تباہ کر رہی ہے۔ اس وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں اب تک تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینی شہید، زخمی یا گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ گھروں، سرکاری و نجی عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔تقریباً 9 ہزار 500 فلسطینی تاحال لاپتہ ہیں جو یا تو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا خطرناک علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں یا پھر ان کا سراغ ہی نہیں مل سکا۔حکومتی میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی افواج نے 125 ہزار ٹن بارودی مواد غزہ پر برسایا جس سے علاقے کا 88 فیصد حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔الجزیرہ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ نے غزہ کی زندگی کے ہر پہلو اور تمام اہم شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ صرف 360 مربع کلومیٹر کے رقبے میں بسنے والے 23 لاکھ سے زائد افراد، جو دنیا کی بلند ترین آبادیاتی کثافت میں شمار ہوتے ہیں، اس تباہی کے دہانے پر ہیں۔
تباہی کے سات سو دنوں کے دوران اسرائیل فضائی، زمینی حملوں اورفائرنگ کے نتیجے میں اب تک64 ہزار 232 فلسطینی شہید،1 لاکھ 61 ہزار 583 زخمی ہو چکے ہیں۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شہدا میں 19 ہزار 424 بچے (30.2فیصد) جن میں 400 نومولود بھی شامل ہیں۔10 ہزار 138 خواتین (15.8فیصد) جن میں سے 8 ہزار سے زائد مائیں تھیں۔4 ہزار 695 بزرگ (7.3فیصد)، 29 ہزار 975 مرد و نوجوان (46.7فیصد) شامل تھے۔وحشی اسرائیل نے طبی عملے کو بھی نہیں بخشا اب تک 1,590 طبی عملہ شہید ہوا۔122شہری دفاع کے اہلکاراور 249 صحافی بھی پیشہ ورانہ زمہ داری انجام دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم سے دنیا آگاہ کرنے کے جرم میں کام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ 171 بلدیاتی ملازمین (جن میں 4 میئر شامل ہیں)۔ 778 افراد کھیلوں اور سماجی سرگرمیوں سے وابستہ تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 38 ہزار سے زائد خاندانوں کو اسرائیلی بمباری کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے 2,613 خاندان مکمل طور پر ختم کردیے گئے۔ اسرائیل نے غزہ میں بھوک اور قحط کی پالیسی کو جنگی حکمت عملی کا حصہ بنایا ہواہے۔ جنگ کے آخری مہینوں میں اسرائیل نے دانستہ طور پر محاصرہ اور غذائی قلت مسلط کی ہے۔ 2 ہزار 356 افراد شہید اور 17 ہزار 244 زخمی ہوئے جب وہ خوراک کی تلاش میں امدادی مراکز کے باہر موجود تھے۔ 370 افراد جن میں 131 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق ہوئے۔
مختلف شعبوں میں نقصانات کے بارے معلومات کے مطابق صحت کا شعبہ بہت متاثر ہے۔ اب تک 38 اسپتال تباہ،96 ہیلتھ مراکز مفلوج،147 ایمبولینس گاڑیاں تباہ،55 ریسکیو وہیکل برباد،مجموعی نقصان: 5 ارب ڈالرہوا ہے۔ تعلیم کا شعبہ156 اسکول، جامعات و تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ،382 جزوی طور پر متاثرہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں روز اوّل سے رہائشی مکانات کو پہلے نمبر پر ہدف بنارکھا ہے۔ رہائشی شعبہ میں 2 لاکھ 10 ہزار مکانات مکمل تباہ اور1 لاکھ 10 ہزار ناقابلِ رہائش ہوگئے ہیں۔ لاکھ 80 ہزار جزوی طور پر تباہ۔اسرائیلی بمباری سے 611 مساجد مکمل شہید ہوگئی 214 مساجد جزوی طور پر متاثر ہیں۔3 چرچ بار بار حملوں کا نشانہ بنے۔چالیس قبرستان تباہ ہوئے۔
غزہ کا صنعتی شعبہ بھی بری طرح نشانہ بناہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں تباہ ہیں۔ پیداوار مکمل طور پر بندہیں۔ غزہ کا تجارتی شعبہ بھی جنگ کی تباہیوں سے محفوظ نہ رہا۔ مارکیٹیں، دکانیں، ریسٹورنٹس، ہوٹلز اور بینک تباہ ہوگئے ہیں۔ 92فیصد زرعی زمین (178 ہزار دونم) تباہ ہوئی ہے۔ 1,218 کنویں برباد، 665 مویشی و پولٹری فارم تباہ ہوئے۔ غزہ بدترین تباہی سے دوچار ہوا ہے۔ تفریحی پارکس، ہوٹلز، تفریحی مقامات و آلات تباہ ہیں۔ حکومتی اداروں میں 236 وزارتوں و سرکاری دفاتر تباہ۔ حکومتی کام کاج معطل ہے۔ گھروں کی تمام اندرونی چیزیں (فرنیچر، برقی آلات، کچن کا سامان وغیرہ) تباہ ہوچکا ہے۔ٹیلی کمیونیکیشن و انٹرنیٹ ٹاورز، نیٹ ورکس اور کمپنیز تباہی کی داستان سنارہی ہیں۔ٹرانسپورٹ و مواصلات کا شعبہ بدترین تباہی کا شکار ہوا ہے۔ گاڑیاں، ٹرک، بحری جہاز، سڑکیں تباہی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔غزہ کا واحد بجلی گھر تباہ ہے۔
سرکاری ترجمان ڈاکٹر اسماعیل الثوابتہ کے مطابق یہ نقصانات ابتدائی اور تخمینی ہیں۔ اصل اور حتمی اعداد و شمار کا اندازہ تب ہی لگایا جا سکے گا جب یہ جنگ ختم ہوگی اور ماہرین کو مکمل رسائی ملے گی۔
