حماس نے اعلان کیا کہ وہ ایسی تمام تجاویز اور خیالات کے لیے کھلے پن کا مظاہرہ کررہی ہے جو غزہ میں مستقل فائر بندی کو یقینی بنائیں۔
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب علاقائی اور عالمی سطح پر ایک جامع معاہدے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ 18 اگست کو فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مل کر ثالثوں کے پیش کردہ فائر بندی منصوبے کی منظوری کے اپنے عزم کو دہراتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ ایسے کسی بھی خیال کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا، بغیر کسی شرط کے امداد کی فراہمی اور قیدیوں کے حقیقی تبادلے کو ثالثوں کے ذریعے ہونے والی سنجیدہ بات چیت میں ممکن بنائے۔
امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی سے اس حوالے سے فون پر بات کی۔
ادھر اسرائیلی ریڈیو نے خبر دی کہ وزیر اعظم کے قریبی ساتھی رون ڈرمر امریکا کا دورہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے حکام سے ملاقات کر سکیں۔ یہ دورہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب غزہ میں فوجی کارروائیاں اور قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات جاری ہیں۔
ریڈیو کے مطابق مصر، امریکا اور قطر اس وقت ایک نئے منصوبے پر کام کررہے ہیں جس میں تمام قیدیوں کی بیک وقت رہائی شامل ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے نیتن یاھو کے قریب ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حکومت ممکنہ طور پر قیدیوں کے تبادلے کے ایک جامع معاہدے کے لیے فوجی کارروائیاں روک سکتی ہے، تاہم وہ کسی جزوی معاہدے پر راضی نہیں ہوگی۔
ذرائع نے واضح کیا کہ فائر بندی اسی صورت ممکن ہے جب مکمل فریم ورک دستیاب ہو جو چند دنوں میں نافذ کیا جا سکے۔
پاکستان اور بنگلادیش کے دینی مدارس کے درمیان سرکاری سطح پر باہمی تعاون کی تجویز
واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت نے حال ہی میں شمالی غزہ پر کنٹرول کی ایک منصوبہ بندی کی منظوری دی ہے، جہاں اس وقت اسرائیلی فوج تقریباً 75 فیصد علاقے پر قابض ہے۔
فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہر پر بڑے پیمانے پر زمینی حملے کے لیے تیار ہے، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً دس لاکھ افراد محصور ہیں اور جس کے بارے میں عالمی ادارہ “انسانی المیے” سے خبردار کررہا ہے۔