انس رشید
نظامِ کائنات دراصل انسانوں کی حیات و ممات کا تسلسل ہے۔ ایک رخ پہ ولادت کی مسکراہٹیں ہیں تو دوسرے رخ پہ اجل کی سیاہی چھائی ہوئی ہے۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ موت بہادر اور بزدل کی دہلیز پر یکساں نہیں اترتی۔ بزدل جسم کے ساتھ مٹ جاتا ہے جبکہ بہادر خاک کے نیچے سو کر بھی تاریخ کے اوراق پر جگمگاتا ہے اور دلوں کی محرابوں میں چراغ بن کر جلتا رہتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’بہادر کبھی نہیں مرتا‘۔
غزہ کی لہو رنگ گلیوں میں جب سے نسل کشی کی آندھیاں چلیں، تب ہی سے ہمارے سامنے جرات و ایثار کی وہ داستانیں آئیں جنہوں نے ہمیں ایک بار پھر صلاح الدین ایوبی کے عہد کی یاد دلا دی۔ انہی داستانوں میں ایک تابندہ نام ہے: ابو عبیدہ۔ وہی ابو عبیدہ جو القسام بریگیڈ کی گرجدار مگر پُرسوز آواز تھے۔ وہی آواز جو فقط دشمن کے دلوں میں زلزلہ برپا نہیں کرتی تھی بلکہ اپنے قافلے کے دلوں میں اُمید اور ایمان کی شمع روشن کرتی تھی۔
ایک ہفتہ قبل 31 اگست کی رات کو اسرائیلی جارحیت نے اعلان کیا کہ ہم نے ابوعبیدہ کو شہید کردیا ہے۔ یہ خبر ایسے تھی جیسے کسی نے آسمان سے سورج چھین لینے کا دعویٰ کیا ہو۔ لیکن ابھی اس کی نہ تصدیق ہوئی نہ تردید۔ پھر بھی یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس سے عالم دنیا کے ہر حریت پسند اور فلسطینی کاز سے جڑے ہر دل پر لرزہ طاری ہے۔ ابوعبیدہ کا کردار محض ایک ترجمان کا نہیں تھا۔ وہ غزہ اور عالم اسلام کے ہر بچے کے خواب میں، ہر ماں کی دعا میں، ہر نوجوان کے حوصلے میں زندہ تھے۔ اُن کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ حق و صداقت کی تفسیر معلوم ہوتا تھا اور ان کی گونج سن کر لگتا تھا جیسے قرآن کا وعدہ’ ولینصرنّ اللہ من ینصرہ ‘ اپنی عملی صورت اختیار کر گیا ہو۔ ابوعبیدہ کے الفاظ بجلی کی کڑک کی طرح تھے، جو ظلم کی دیواروں کو ہلا دیتے تھے مگر انہی الفاظ میں امید اور فتح کی بشارت بھی مضمر ہوا کرتی تھی، جو غم زدہ ماوں کے دلوں پر مرہم رکھتی تھی۔ وہ صرف ایک شخص نہیں تھے بلکہ پوری اُمت کے ضمیر کی دھڑکن تھے۔ ان کی خطابت پُرکشش تھی۔ وہ اقبال کے اس شعر کا عملی نمونہ تھے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
ابوعبیدہ کے سفر کا آغاز القسام کے اُس قافلے سے ہوا جو خاک و خون میں لپٹا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کارواں کے ترجمان بن کر صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک پوری ملت کی آرزوں کو آواز دی۔ جب دنیا نے فلسطینیوں کو مٹانے کی سازشیں کیں، ابوعبیدہ کی زبان نے ان سازشوں پر بجلی کی طرح وار کیا۔ ان کے ہر پیغام میں شہادت کی تمنا اور جستجو اور شجاعت و جلالت کی خوشبو جھلکتی تھی۔ اگر ابوعبیدہ واقعی شہید ہوگئے ہیں تو سمجھ لو کہ ایک اور ’صلاح الدین‘ اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی جان لو کہ ایسے چراغ بجھا نہیں کرتے، یہ بجھ کر روشنی کی نئی کہکشاں کو جنم دیتے ہیں۔ ماضی تو دُور کی بات ہے، فلسطینی مزاحمت کی اب ہی کی تاریخ دیکھ لیں، شہادتوں نے مزاحمت کو بالکل بھی کمزور نہیں کیا، بلکہ ہر ایک شہادت کے بعد مزاحمت و مقاومت مزید مضبوط ہورہی ہے۔
غزہ کی ریت میں بویا گیا ہر بیج خون سے سینچا جاتا ہے اور شہادت اس بیج کو شجرِ حیات میں ڈھال دیتی ہے۔ غزہ کی تاریخ ابوعبیدہ کے نام کے بغیر ادھوری ہے۔ وہ قافلے کے معمار بھی ہیں اور نگہبان بھی۔ اگر وہ شہید ہوگئے ہیں تو یہ ان کی زندگی کا سب سے حسین لمحہ ہے اور اگر وہ زندہ ہیں تو وہی غزہ کا دھڑکتا ہوا دل ہیں۔ آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ابوعبیدہ محض ایک فرد نہیں، وہ ایک استعارہ ہیں؛ جرات کا استعارہ، استقامت کا استعارہ اور ایمان و یقین کامل کا استعارہ۔
