حماس جنگ بندی پر آمادہ، اسرائیل کی پھرڈھٹائی،مجاہدین کے حملے

تل ابیب /غزہ/واشنگٹن/ابوظہبی/لندن /ریاض/ہیلنسکی:فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جامع جنگ بندی معاہدے پر آمادگی ظاہر کر دی تاہم اسرائیل نے ایک بار پھر اس پیشکش کومسترد کردیا۔

عرب ٹیلی ویژن کے مطابق جاری کردہ ایک بیان میں حماس نے کہا کہ وہ ایک جامع جنگ بندی قبول کرنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا تاہم غیر مسلح ہونے کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایاگیا کہ یہ صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ممکن ہو سکتا ہے۔

حماس نے اسرائیل پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شمالی غزہ میں ایک رہائشی مکان کو نشانہ بنا کر خوفناک جنگی جرائم کیے ہیں جس کے نتیجے میں کم از کم 10 فلسطینی شہید ہوئے۔تنظیم نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی غزہ سٹی اور دیگر علاقوں میں وحشیانہ کارروائیوں اور نسل کشی کے اقدامات کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کرے۔

ادھر اسرائیل نے حماس کی تازہ پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی صرف انہی شرائط پر ممکن ہے جو کابینہ نے طے کی ہیں، جس میں غزہ میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کا غیر مسلح ہونا شامل ہے ۔

اسرائیلی ریاست کے ایک سینئر فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ ہماری توقع اور اندازہ ہے کہ تازہ جنگی کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً 10 لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو ان پناہ گاہوں کی طرف دھکیلا جا سکے گا جو ہیومنیٹیرین ایریازکے طور پر اسرائیلی ریاست نے مقرر کیے ہیں ۔

تاہم اسرائیلی ریاست کے اس فوجی عہدیدار نے یہ واضح طور پر نہیں کہا کہ اسرائیل کی تازہ جنگی یلغار کا بنیادی مقصد غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کو مخصوص علاقوں میں منتقل کر کے باقی غزہ کو خالی کرانا ہے۔

اسرائیلی وزارت دفاع کے ذیلی ادارے کوگیٹ کا کہنا تھاکہ حالیہ دنوں میں ہم نے فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں شمالی غزہ سے جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی دیکھی ہے۔ اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینی شمالی غزہ کو چھوڑ چکے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشلپر لکھا کہ حماس کو بتائو کہ وہ فوری طور پر تمام20 یرغمالیوں(نہ کہ 2، 5 یا 7)کو واپس کر دے تو سب کچھ تیزی سے بدل جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ ختم ہو جائے گی۔

ادھرفلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے مختلف ہسپتالوں میں 84 شہداء کی میتیں اور 338 زخمی پہنچائے گئے۔

وزارت صحت نے جمعرات کے روز اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں امداد کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے17افرادکو گولیاں مار کر شہید کیا گیا اور 174 زخمی ہسپتالوں میں لائے گئے۔ اس طرح امداد کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 2 ہزار 356 ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 17 ہزار 244 سے تجاوز کر گئی ہے۔

وزارت نے مزید وضاحت کی کہ گزشتہ ایک دن میں قحط اور غذائی قلت کے باعث 6 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ یوں قحط اور بھوک کی وجہ سے شہداء کی مجموعی تعداد 370 ہو گئی ہے جن میں 131 بچے شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل کے 7 اکتوبر 2023ء سے جاری وحشیانہ اور سفاکانہ حملوں میں شہداء کی مجموعی تعداد بڑھ کر 64 ہزار 231 اور زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 61 ہزار 583 ہو گئی ہے۔

دریں اثناء حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈزنے شمالی غزہ کے جبالیہ کے علاقے میں قابض اسرائیل کی مشینری کو نشانہ بنانے کے مناظر جاری کیے ہیں۔ یہ کارروائی عصا موسیٰ کی سلسلے وار کارروائیوں کا حصہ ہے۔ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین القسام کے مجاہد ایک تباہ شدہ مکان سے نکل کر الغباری اسٹریٹ پر ایک مرکاوا ٹینک اور ایک ٹروپ کیریئر گاڑی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ایک مجاہد نے اسرائیلی ٹینک پر الیاسین 105 گولہ داغا جبکہ دوسرا ٹروپ کیریئر گاڑی پر دیسی ساختہ بم رکھ کر واپس چلا گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد دھماکا ہوا جس سے ٹینک مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ویڈیوز میں ایک اور مجاہد ٹینک کی چھت پر چڑھ کر اس میں بم ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اندر سے بند ہونے کی وجہ سے وہ ناکام رہتا ہے۔ اس کے بعد مجاہدین نے ٹینک اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے ٹینک کو الیاسین گولوں اور رائفلوں سے نشانہ بنایا۔

قابض اسرائیلی فوج کا طولکرم شہر اور اس کے مہاجر کیمپوں پر وحشیانہ حملہ مسلسل 221 ویں روز بھی جاری رہا جبکہ نور شمس کیمپ پر 209 ویں روز سے یلغار جاری ہے۔ اس دوران فوجی دھاوے، گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور بچوں کو اسکولوں سے محروم کرنے کے مذموم حربے تیز کر دیے گئے ہیں۔

طولکرم کی میڈیا کمیٹی نے اپنے بیان میں بتایا کہ جمعرات کے روز قابض اسرائیلی فوج نے طولکرم کیمپ سے ملحق مشرقی محلے ابو صفیہ کے مکینوں کو گھروں سے جبراً بے دخل کر دیا۔بیان کے مطابق گذشتہ شب قابض فوج نے طولکرم کی عنبتا قصبے اور جنوبی گاؤں الراس پر دھاوا بولا، گھروں کی تلاشی لی اور شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا۔

اسی دوران کیمپ طولکرم کے داخلی راستے پر قائم چیک پوسٹ پر 4 فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔قابض اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے شہروں جنین، نابلس اور الخلیل پر دھاوا بولا اور شہریوں کے گھروں میں گھس کر اندھا دھند گرفتاریاں کیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ صہیونی فوج نے رام اللہ کے شمال مشرق میں واقع بلہ سلواد، الخلیل کے شمال مشرق میں سعیر، بیت لحم کے مشرق میں بیت تعمر گاؤں اور نابلس کے جنوب میں بلہ بیتا پر بھی یلغار کی۔فیلڈ میں جاری فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق اب تک کارروائیوں کے دوران 18 ہزار 500 سے زیادہ شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ مغربی کنارے کے کسی بھی قسم کے الحاق کا فیصلہ ہمارے لیے سرخ لکیر ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اماراتی معاون وزیر لانا نسیبہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کسی بھی کوشش کو سرخ لکیر سمجھا جائے گا اور یہ اقدام ابراہیم معاہدے کو نقصان پہنچائے گا جس کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یو اے ای فلسطینی عوام اور آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا۔فلسطینی اتھارٹی کی وزارتِ خارجہ نے امارات کے اس موقف کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ اسرائیلی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

یمنی مسلح افواج نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ انہوں نے ایک بڑی فوجی کارروائی کے دوران مقبوضہ فلسطین کے علاقے ”یافا” میں واقع ہوائی اڈے کو ذو الفقار طرز کے بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی مظلوم فلسطینی عوام اور ان کے مجاہدین کی حمایت میں اور قابض صہیونی دشمن کی طرف سے غزہ پر ڈھائے جانے والے اجتماعی قتل عام اور قحط مسلط کرنے جیسے جرائم کے جواب میں کی گئی۔

ساتھ ہی یہ یمن پر قابض اسرائیل کے حملوں کا ابتدائی جواب بھی ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم ”ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز” نے خبردار کیا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی عوام قابض اسرائیلی فوج اور یہودی آبادکاروں کے ہاتھوں جبری اور اجتماعی بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں، جو علاقے میں نسلی تطہیر کے خطرے کو شدت دے رہی ہے۔

تنظیم نے کہا کہ وہ ایسی پالیسیوں اور اقدامات کی گواہ ہے جو فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکالنے اور واپسی کے تمام دروازے بند کرنے کے لیے بہ آسانی ترتیب دی گئی ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائی جانے والی اذیت گذشتہ 36 برسوں کی تاریخ میں کبھی بھی اس قدر معمولی اور عام نہیں رہی۔

تنظیم نے بتایا کہ 2025ء میں یہ مظالم اور بھی بڑھ گئے ہیں اور امریکا اور یورپی یونین جیسے اسرائیل کے قریبی حلیف ممالک پر زور دیا کہ وہ قابض اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے اور قبضے کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔

ادھرفلسطینی مزاحمتی تنظیم کتائب المجاہدین نے اعلان کیا ہے کہ اس کی اعلیٰ عسکری کونسل کے رکن اور عظیم مجاہد کمانڈر مصباح سلیم الدایہ المعروف ابو سلیم اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک بزدلانہ صہیونی حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔ یہ شہادت ایک طویل جدوجہد، ایثار، قربانی اور دشمن کو کاری ضربیں لگانے والی جہادی زندگی کے بعد پیش آئی۔

کتائب المجاہدین نے اپنے بیان میں کہا کہ شہید ابو سلیم اپنی جہادی زندگی میں شہید قائدین کے ہمراہ رہے، بالخصوص بانی سیکرٹری جنرل شہید ابو حفص اور سیکرٹری جنرل شہید ابو الشیخ کے ساتھ جدوجہد کے مختلف مراحل میں شریک رہے۔

دوسری جانب تیونس سے امدادی سامان اور کارکنان پر مشتمل ”گلوبل صمود فلوٹیلا” کا قافلہ غزہ کیلئے روانہ ہوگیا۔ اس قافلے میں 44 ممالک کے انسانی حقوق کے کارکنان شامل ہیں جو 70 سے زائد جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے محصور فلسطینی عوام تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

پاکستانی دستے کے سربراہ سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ فلوٹیلا کے تین بڑے مقاصد ہیں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنا، امداد کے لیے ہیومن کوریڈور قائم کرنا اور جاری نسل کشی کا خاتمہ کرنا۔انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہے اور اس کا مقصد انسانیت کو بچانا ہے۔

مشتاق احمد نے عالمی ریاستوں اور اداروں پر زور دیا کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کروانے اور امدادی بیڑوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کریں۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے فرانس کے صدر میکرون کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورت حال اور غزہ میں انسانی المیے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر گفتگو کی گئی۔سعودی میڈیا کے مطابق دونوں رہنمائوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور مشرقِ وسطی میں قیامِ امن کی ضرورت پر زور دیا۔

فن لینڈ کے میڈیا اداروں نے صدر الیگزینڈر سٹب سے غزہ میں صحافیوں کا تحفظ یقینی بنانے میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔فن لینڈکے صحافیوں، ایڈیٹرز، پبلشرز اور سول سوسائٹی اداروں نے صدر الیگزینڈر سٹب سے مشترکہ درخواست کرتے ہوئے عالمی سطح پر کردار ادا کرنیکا مطالبہ کیا اور کہا اگست میں غزہ میں اسرائیلی حملوں میں6صحافی مارے گئے۔

شہید صحافیوں کا تعلق رائٹرز، اے پی اور الجزیرہ سے تھا۔صدر الیگزینڈر سٹب کو دی گئی درخواست میں کہا گیا کہ یہ انفرادی سانحات نہیں بلکہ آزادی صحافت پر منظم حملہ ہیں۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ غیرملکی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی، اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت صحافیوں کا تحفظ عالمی ذمہ داری ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے بلجیم کے ہم منصب بارٹ ڈی ویور کو اس بنا پر ایک کمزور رہنما قرار دیے دیا کیونکہ ان کا ملک دیگر یورپی ممالک کی طرح فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ برسلز دہشت گردی کو خوش کر رہا ہے۔نیتن یاہو نے اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ بلجیم کے وزیر اعظم ڈی ویور ایک کمزور رہنما ہیں جو اسرائیل کی قربانی دے کر دہشت گردی کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل اس پر راضی نہیں ہوگا اور اپنا دفاع جاری رکھے گا۔