رپورٹ: علی ہلال
گو کہ اسرائیل اپنی دو سال کی فوجی اور انتظامی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاکر بہر صورت اپنی فتح اور کامیابی کے دعووں کو سچ ثابت کرنا چاہتا ہے، لیکن مزاحمت نے بڑے سکون اور ٹھنڈے مائنڈ سے غزہ میں سرگرم فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے صمود اور استقامت کی نمایاں مثال دنیا کے سامنے پیش کردی ہے۔ جس سے عاجز آکر اسرائیلی عوام اب اپنی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف نہ صرف سڑکوں پر آگئی ہے بلکہ مشتعل مظاہرین نےتن یاہو کے گھر کے باہر کھڑی رکاوٹوں کو آگ لگادی ہے۔
اسرائیل میں بدھ کی صبح ایک بار پھر مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں شرکت کرنے والوں نے غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ کرنے اور جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ قیدیوں کے اہلِ خانہ نے مغربی بیت المقدس میں احتجاجی ریلی نکالی اور مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر ایسا معاہدہ کرے جس کے نتیجے میں غزہ میں موجود قیدی واپس آ سکیں۔ اسرائیلی چینل 12 کے مطابق مظاہرین نے اپنی گاڑیاں لا کر کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کے داخلی راستے بند کر دیے اور قیدیوں کی رہائی و جنگ کے خاتمے پر زور دیا۔اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے نے بتایا کہ کچھ مظاہرین ’قومی لائبریری‘ کی چھت پر چڑھ گئے جو کنیسٹ کے قریب واقع ہے اور وہاں سے بھی قیدیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
قیدیوں کے اہل خانہ نے حکومت اور وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ ثالثوں کی تجویز پر غور کرنے سے گریزاں ہیں اور ’ایسی سیاسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نہ کوئی اہداف ہیں اور نہ ہی جواز‘۔ اسی دوران مظاہرین نے مغربی یروشلم میں نیتن یاہو کے گھر کے قریب کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی۔ بیت المقدس کے داخلی راستے پر اسرائیلی قیدیوں اور فوجیوں کی ماوں نے بھی مظاہرہ کیا۔ ان کے ساتھ ایک تابوت کا ماڈل تھا جو اسرائیلی پرچم میں لپٹا ہوا تھا جس کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ جنگ جاری رہی تو فوج کو مزید ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مظاہرین نے ایسے بینرز بھی لہرائے جن پر نیتن یاہو کی تصاویر تھیں اور ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے اور قیدیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار وہی ہیں۔اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی ایتمار بن غفیر نے کہا کہ ’وزیراعظم نیتن یاہو کے گھر کے قریب جو آتش زنی ہوئی وہ دراصل عدلیہ کی مشیر کی حمایت سے کی گئی دہشت گردانہ کارروائی ہے جس کا مقصد ریاست کو جلانا ہے۔‘
اسرائیلی اندازوں کے مطابق اس وقت حماس کے پاس غزہ میں 48 اسرائیلی قیدی موجود ہیں جن میں سے 20 زندہ ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیل کی جیلوں میں 10 ہزار 800 سے زائد فلسطینی قید ہیں جن میں سے اکثر کو تشدد اور طبی غفلت کا سامنا ہے، جیسا کہ انسانی حقوق کی رپورٹس اور میڈیا ذرائع بتاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی قابض افواج امریکا اور مغربی ممالک کی براہِ راست حمایت سے غزہ پر تباہ کن جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اب تک اس جنگ میں 2 لاکھ 24 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔یاد رہے کہ 18 اگست کو حماس نے ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی جزوی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی تجویز قبول کرلی تھی، تاہم اسرائیل نے تاحال اس پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا، حالانکہ یہ تجویز اس سے قبل تل ابیب کے منظور شدہ ایک فارمولے سے مطابقت رکھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوسال پورے ہونے میں ایک ماہ باقی ہے لیکن اسرائیل اب تک اپنے تین اعلان کردہ اہداف تک نہیں پہنچ سکے۔اس ناکامی کو اس وقت اسرائیلی میڈیا اور عوام بہت شدت کے ساتھ ڈسکس کررہے ہیں۔ فلسطینی میڈیا فاونڈیشن سے وابستہ ماہر ابراہیم نے بتایا کہ اسرائیل مزاحمت کی استقامت سے اس قدر سراسیما ہوگیا ہے کہ رواں ہفتے القسام بریگیڈ کے ترجمان کے قتل کا دعویٰ کرکے اپنی ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ اسرائیلی فوج، پبلک سیکورٹی سروس شاباک اور خود وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے باقاعدہ اس مبہم دعوے کو بڑی کامیابی کے طور پر اعلان کیا، جس کی وجہ بتاتے ہوئے تجزیہ کار نے بتایا کہ یہ اسرائیل کے لئے ایک مورال بوسٹ ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کو عوامی اشتعال کا نشانہ بننے سے بچا نہیں سکا۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ غزہ کو اس جارحیت سے غیرمعمولی تباہی کا سامناہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کا غرور خاک میں مل گیا ہے۔ غزہ کی مزاحمت بڑی استقامت کے ساتھ تکنیکی طریقے سے ان حربوں کو ناکام بنارہی ہے۔ مزاحمت بڑی مہارت کے ساتھ جسمانی اور نفسیاتی جنگ لڑرہی ہے۔ یہ مقابلہ مختلف اس لحاظ سے بھی ہے کہ غزہ یمن، افغانستان سے اور بوسنیا سے مختلف ہے۔ غزہ میں پناہ دینے والے پہاڑ ہیں نہ گھن چکر وادیوں کا وجود ہے، ناہی گھنے جنگلات ہیں۔ یہ ایک سائیڈ سے سمندر اور اسرائیل میں گہرا ہواہے۔ جنوب میں مصر سے اس کی اکلوتی سرحد ملتی ہے جبکہ مصر اسرائیل کا معاون ہے۔ سمندر کے کنارے 365 مربع کلومیٹر کی ایک ہموار پٹی میں کوئی خفیہ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت کار اسرائیل کے لیے خوف کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق فلسطینی مزاحمت کا یہ مشرق وسطیٰ کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے سب سے طاقتور آرمی کے ساتھ مقابلہ ہے۔ اسرائیل نے سات اکتوبر 2023ء کو آہنی تلواروں کے نام سے غزہ پر جارحیت کا آغاز کرتے ہوئے تین اہداف کا اعلان کیا تھا۔
٭…. اپنے قیدیوں کو بزور قوت بازیاب کروائیں گے۔
٭….مزاحمت کا مکمل خاتمہ کریں گے۔
٭….غزہ پر مکمل قبضہ کریں گے۔
اس جنگ کے دوسال پورے ہورہے ہیں لیکن اسرائیل ایک گول بھی اچیو نہیں کرسکا ہے۔ قیدیوں کو منتیں کرکے مذاکرات کے نتیجے میں رہا کروایا۔ کچھ مارے گئے اور اب تک دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مدد کے باوجود رسائی میں ناکامی کا سامنا کررہاہے۔ اسرائیل کے متعدد عسکری ماہرین کہہ رہے ہیں کہ صہیونی ریاست کو دنیا بھر میں اس وقت سب سے خطرناک نفسیاتی جنگ کا سامنا ہے۔اسرائیلی صحافی بن کسبیت نے کہا ہے کہ غزہ پر جاری جنگ جو 23 ماہ سے زیادہ عرصے سے چل رہی ہے، اسرائیل کی تاریخ کی بدترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔عبرانی اخبار معاریف میں شائع اپنے کالم میں کسبیت نے لکھا کہ اس جنگ کے نتائج اب تک ’شکستِ فاش‘ کے سوا کچھ نہیں ہیں، حالانکہ اس کے آغاز کو تقریباً دو برس مکمل ہو چکے ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ اس جنگ میں اب تک ’900 سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں‘، اس کے باوجود اسرائیل تحریک مزاحمت اسلامی (حماس) کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جسے وہ اسرائیل کے کمزور ترین دشمنوں میں شمار کرتے ہیں۔‘
کسبیت نے اس صورت حال کی مکمل ذمہ داری وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پر عائد کی اور کہا کہ ’نیتن یاہو انتہائی دائیں بازو کے وزرا ایتامار بن غفیر اور بتسلئیل سموترتش کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں، جس کا خمیازہ فوجیوں، قیدیوں اور اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو بھگتنا پڑ رہا ہے‘۔ کسبیت کے مطابق: اسرائیل تقریباً دو برس سے غزہ میں ایسی جنگ لڑرہا ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد ہے۔ اس دوران بے پناہ فوجی طاقت جھونک دی گئی مگر حماس کے سامنے کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ‘ انہوں نے کہا کہ حماس نے اپنے لیے ایک باقاعدہ فوج تشکیل دی ہے حالانکہ اس کے پاس فضائیہ نہیں، بھاری اسلحہ نہیں، بکتر بند گاڑیاں نہیں، فضائی دفاعی میزائل نہیں، بحری بیڑا نہیں، نہ ہی ریڈار یا روک تھام کرنے والے ہتھیار۔ اس کے باوجود وہ ایک محصور اور چھوٹے سے علاقے میں اسرائیل کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے‘۔
