غزہ/تل ابیب/واشنگٹن:فلسطینی اتھارٹی نے کہاہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے صحن کے نیچے غیرقانونی کھدائی کرکے اسلامی آثار قدیمہ تباہ کر رہا ہے۔فلسطینی اتھارٹی نے بتایا کہ یہ آثار قدیمہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر مسلمانوں کے جائز حق کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں کچھ افراد کو مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں کھدائی کے بعد بڑے پتھر توڑتے دیکھا جاسکتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی کارروائی بین الاقوامی قوانین و معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ اسرائیل کا مقصد اسلامی شناخت ختم کرکے مستقبل میں مسجد اقصیٰ کی جگہ یہودی عبادت گا ہ بنانا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ میں خودکاربارودی روبوٹس کے ذریعے عمارتیں تباہ کرنا شروع کردیںجبکہ غزہ پر حملوں کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اسرائیلی فوج پر حملہ کردیا۔
القسام بریگیڈ نے تازہ حملوں میں اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا، انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج کے ایک مرکاوہ ٹینک کو یاسین105 میزائل سے نشانہ بنایا گیا جبکہ ایک ڈی9 فوجی بلڈوزر کو ایک گلی میں نصب دھماکا خیز مواد سے نشانہ بنایاگیا جس میں 4صہیونی فوجی زخمی ہوگئے۔
دریں اثناء اسرائیل نے غزہ پر زمینی و فضائی حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ 24 گھنٹے میں مزید 90 فلسطینی شہید اور 421 زخمی ہوگئے۔اسرائیل کے جبری قحط سے مزید7 فلسطینی جاں بحق ہوگئے جبکہ تعداد 339 ہوگئی جبکہ اتوار کی شب قابض اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں شہر غزہ میں صحافیہ اسلام محارب عابد شہید ہو گئیں۔
ٹی وی چینل ”القدس الیوم” نے اعلان کیا کہ ہم فلسطین اور پوری دنیا کے صحافتی حلقوں کو یہ غم انگیز خبر دیتے ہیں کہ ہماری باہمت ساتھی صحافی اسلام محارب عابد صہیونی دشمن کی بمباری میں جام شہادت نوش کر گئیں۔
چینل نے اپنے بیان میں عزم دہراتے ہوئے کہا کہ ہماری مزاحمتی صحافتی آواز پوری قوت اور حوصلے کے ساتھ جاری رہے گی اور قابض اسرائیل کی قتل و غارت کی مشین کبھی بھی ہمارے قلم اور ہمارے کیمروں کی صدا کو خاموش نہیں کر سکے گی کیونکہ یہ آواز دراصل فلسطینی عوام کی آواز ہے۔
اسلام عابد کی شہادت کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں سنہ2023ء کے 7 اکتوبر کو قابض اسرائیل کی جارحانہ جنگ کے آغاز سے اب تک شہید ہونے والے صحافیوں اور صحافی خواتین کی تعداد بڑھ کر 247 ہو گئی ہے۔ اس عرصے میں سیکڑوں صحافی زخمی اور گرفتار بھی کیے گئے جبکہ درجنوں میڈیا ادارے اور دفاتر صہیونی بمباری میں تباہ کر دیے گئے۔
ادھر صہیونی فوج کی شیخ رضوان میں امدادی مرکز کے قریب بمباری سے خواتین اور بچے شہید ہوئے۔بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں پر عالمی برادری نے اظہار تشویش کیا،غزہ میں فاقہ کشی کی صورتحال پر عالمی ادارے نے قحط کا انتباہ جاری کردیاہے۔
علاوہ ازیںقابض اسرائیلی فوج کی درندگی اور صہیونی آبادکاروں کے دہشتگرد حملوں کے نتیجے میں اتوار کی شب جنوبی الخلیل میں 7 فلسطینی زخمی ہو گئے جبکہ درجنوں شہری آنسو گیس کے دھوئیں سے متاثر ہوئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق قابض فوج نے الخلیل کے جنوب میں واقع الفوار پناہ گزین کیمپ پر دھاوا بول دیا اور اندھا دھند گولیاں، آنسو گیس کے شیل اور آواز پیدا کرنے والے دھماکا خیز بم برسائے جس کے نتیجے میں کیمپ کے اندر شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
فلسطینی نوجوانوں نے قابض فوج کی بکتربند گاڑیوں پر پتھروں اور خالی بوتلوں سے مزاحمت کی۔فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ اس کے طبی عملے نے الفوار کیمپ میں تین فلسطینیوں کو گولیوں سے زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا جن میں دو نوجوان ٹانگوں میں زخمی ہوئے جبکہ ایک لڑکی کی گردن پر گولی کا خراش لگا۔
ادھرامریکا کے معروف اخبار نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد کی تیاری اس طرح کی جارہی ہے کہ غزہ کا کنٹرول ٹرمپ انتظامیہ کے پاس ہو گا اور غزہ کی ساری فلسطینی آبادی کو غزہ سے نکال دیا جائے گا۔
اخبار نے بتایا کہ ان دنوں صدر ٹرمپ اسی منصوبے کے خدو خال کو دیکھ رہے ہیں اور اپنے انتہائی قریبی افراد کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں۔یاد رہے اس نوعیت کی ایک اہم۔مشاورتی میٹنگ وائٹ ہائوس میں پچھلے ہفتے ہوئی اس اہم تین مشاورتی اجلاس میں صدر کے داماد کے علاوہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی بطور خاص شریک ہوئے۔
دوسری جانب بظاہر امریکا واحد اسرائیلی اتحادی ملک ہے جس نے اسرائیلی ریاست کے غزہ کے لیے نئے توسیعی جنگی منصوبے کی اس کے باوجود حمایت کی ہے کہ لاکھوں فلسطینی غزہ میں قحط کا سامنا کر رہے ہیں اور فلسطینیوں کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں ۔ اسرائیلی ریاست نے بمباری مزید تیز کر دی ہے۔
اخبار کے مطابق بعد از جنگ غزہ کو کم از کم دس سال کے لیے امریکی ٹرسٹی شپ میں دینے کا منصوبہ ہے۔ یہ مدت اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔اس منصوبے کا دوسرا حصہ غزہ میں ”ریویرا” کا ٹرمپ کا خواب پورا کرنا ہے تاکہ غزہ کو ایک خوبصورت سیاحتی مرکز بنایا جا سکے لیکن یہ فلسطینیوں کے بغیر مکمل ہونے والا منصوبہ ہوگا۔
اسرائیلی ریاست اور امریکا کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ غزہ کو اب فلسطینیوں سے پاک ہونا چاہیے البتہ فلسطینی غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں دینے کو راضی نہیں ہیں۔اخبار کے مطابق غزہ کے مستقبل کا یہ منصوبہ ابتدائی طور پر 38 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے دوتجاویز زیر غور ہیں کہ فلسطینی خوشی خوشی یہاں سے دوسرے ملکوں میں جا بسیں اور انہیں جو کہا جائے کرتے جائیں۔ دوسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ غزہ کے فلسطینی نئے تعمیراتی منصوبے پر عمل کے دوران غزہ کی پٹی پر بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں میں چپ چاپ رہیں اور تعمیراتی منصوبے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
یہ واضح نہیں کہ اس تعمیراتی منصوبے کے لیے لیبر اسرائیل بھارت سے منگوائے گا یا امریکا کہیں سے منگوائے گا۔منصوبے میں فلسطینیوں کی غزہ میں جائیدادوں کے بدلے انہیں ایک ٹوکن دینے کی تجویز بھی رکھی گئی ہے تاکہ تعمیرات کے دوران وہ اپنی املاک کو بار بار یاد نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کا تعمیراتی کمپنیوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو۔
اسرائیلی میڈیا نے پیر کو بتایا ہے کہ فوج نے کابینہ کی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں غزہ شہر کے گھیرائو اور قبضے کے لیے اپنی تفصیلی منصوبہ بندی پیش کردی۔ فوج کے مطابق یہ کارروائی دو ہفتوں کے اندر شروع ہو گی۔میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اگلے دو دنوں میں 60 ہزار اضافی فوجیوں کو طلب کرنے کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس کے دوران زیادہ تر وزراء نے غزہ سے متعلق کسی جزوی معاہدے کو مسترد کر دیا جبکہ فوجی سربراہ ایال زامیر اور سیکورٹی اداروں کے سربراہان نے جزوی معاہدے کی حمایت کی تاہم وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاملے پر ووٹنگ نہیں کروائی کیونکہ یہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کی ایک خفیہ داخلی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں غزہ میں ہونے والے فوجی آپریشن عربات جدعون کی ناکامی تسلیم کی گئی ہے۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ فوج نے جنگ میں ہر ممکن غلطی کی اور کارروائیوں میں واضح طور پر حکمتِ عملی کا فقدان رہا۔
اس کے نتیجے میں فوج اور سازوسامان کی مسلسل کھپت ہوئی مگر نہ تو کوئی عسکری برتری ملی اور نہ کوئی سیاسی نتیجہ برآمد ہوا۔ادھرغزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف دنیا بھر کے 250 میڈیا آئوٹ لیٹس نے اپنے فرنٹ پیجز اور پروگرامز کو بلیک آئوٹ کردیا۔
غزہ میں 2 سال سے جاری اسرائیلی حملوں اور صحافیوں کے قتل عام کے خلاف اس منفرد مگر طاقتور احتجاج کا اہتمام صحافیوں کی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر (RSF) اور عالمی مہم چلانے والی تحریک آواز کی جانب سے کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل عام کے خلاف اور صحافیوں کے حق میں ہونے والے اس احتجاج میں تاریخ میں پہلی مرتبہ 70 سے زائد ممالک کے 250 میڈیا آئوٹ لیٹس نے اپنے فرنٹ پیچز، ویب سائٹس ہوم پیچز اور اپنی براڈکاسٹنگ کو بلیک آئوٹ کیا ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کے مطابق اس احتجاج میں قطر، فرانس، برطانیہ، جرمنی، فلسطین، جنوبی کوریا، اسپین اور اٹلی سمیت 70 ممالک کے میڈیا آئوٹ لیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر نے فلسطینی صحافیوں کے تحفظ، غزہ میں میڈیا کی آزاد رسائی، فلسطینی صحافیوں کے خلاف ہونے والے اسرائیلی فوج کے جرائم روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے امریکا سے ویزے دینے کا مطالبہ کردیا۔صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے، امریکا اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے ویزے بحال کرے، یورپی یونین نے بھی امریکا سے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کر دیاہے۔
دوسری جانب غزہ کے وسطی علاقے میں واقع ہسپتال نے ایک ہنگامی اپیل جاری کی ہے تاکہ ایک بجلی کا جنریٹر فراہم کیا جائے اور ہزاروں مریضوں اور زخمیوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔ہسپتال نے مرکزاطلاعات فلسطین کو ایک بیان بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ہسپتال وسطی غزہ میں تقریباً ایک لاکھ انسانوں کو طبی خدمات اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرتا ہے۔
ہسپتال نے بتایا کہ شدید بجلی کے کمزور ہونے کی وجہ سے مریضوں اور زخمیوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہسپتال کے مرکزی جنریٹر بار بار خراب ہو چکے ہیں کیونکہ وہ مسلسل دباؤ اور سخت آپریٹنگ حالات میں کام کر رہے ہیں۔
ادھرغزہ میں ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ”ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” کی ٹیم کی سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ کی طبی صورتحال نہایت ابتر ہے اور کسی قسم کے وسائل یا ضروری سامان میسر نہیں۔انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ میں قحط کے باضابطہ اعلان کے بعد بھی کوئی پیش رفت یا عملی اقدام سامنے نہیں آیا، شہری اب بھی بھوک سے بلک رہے ہیں۔
کلب برائے فلسطینی اسیران کے دفتر نے زور دیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جیلوں کی انتظامیہ نے 7 اکتوبر2023ء سے فلسطینی قیدیوں پر جان بوجھ کر بھوک مسلط کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو حالیہ مہینوں میں قحط کی سطح تک جا پہنچی ہے۔
یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب قابض ریاست چوتھی جنیوا کنونشن میں درج انسانی معیارات کی صریح خلاف ورزی کر رہی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اسیران کو محض چند لقمے ملتے ہیں وہ بھی انتہائی ناقص معیار کے ہیں۔ نتیجتاً قیدیوں میں شدید کمزوری، وزن میں خطرناک کمی اور مدافعتی نظام کی تباہی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
کئی اسیران کا وزن آدھا رہ گیا ہے اور عمومی صحت بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔دفتر نے بتایا کہ 12 افراد پر مشتمل ایک کمرے کے لیے جو کھانا دیا جاتا ہے وہ ایک قیدی کے لیے بھی ناکافی ہوتا ہے۔ یہ صورتحال براہِ راست اسیران کی زندگی کے لیے خطرہ ہے جس سے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں اور بگڑ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی نہ تو کوئی طبی سہولت دی جا رہی ہے اور نہ ہی دوا۔مزید کہا گیا کہ تمام اسیران رہائی کے فوراً بعد گھروں کو جانے کے بجائے ہسپتال منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کا علاج کیا جا سکے کیونکہ وہ سخت کمزوری اور ہولناک لاغری کا شکار ہوتے ہیں۔