مولانا محمد عثمان انیس درخواستی
ماہِ ربیع الاول اِسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ صرف ایک تاریخی یا موسمی نام نہیں بلکہ روحانی بہار کا پیامبر ہے۔ اس کا نام ہی بہار کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔
ربیع کا مطلب ہے بہار اور الاوّل کا مطلب ہے پہلا۔ یعنی بہار کا پہلا مہینہ۔ جب قمری مہینوں کے نام رکھے گئے تو یہ مہینہ عرب کے ریگزاروں میں موسمِ بہار کے ساتھ آتا تھا، جب بارش کے بعد بنجر زمین ہریالی سے سج جاتی، چراگاہیں آباد ہوتیں اور زندگی کی رمق جاگ اٹھتی۔ لیکن یہ مہینہ محض فطری مناظر کی بہار تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے انسانیت کو وہ دائمی بہار دی جو آج تک دلوں اور روحوں کو شاداب کر رہی ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں سیدالانبیاء، رحمة للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پیر کے دن 9 ربیع الاوّل عام الفیل میں مکہ مکرمہ کی بابرکت سرزمین پر ہوئی۔ اس لمحے کائنات کے ذرے ذرے میں نور پھیل گیا۔ کتب سیرت میں ہے کہ اس موقع پر غیرمعمولی نشانیاں ظاہر ہوئیں؛ ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے زمین بوس ہوگئے، فارس کا ہزار سال سے روشن آتش کدہ بجھ گیا اور دنیا کے بڑے بڑے بت منہ کے بل گر گئے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب ظلم و جبر کے اندھیرے چھٹنے والے ہیں اور حق و ہدایت کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
لیکن ذرا وِلادت سے پہلے کے حالات پر نگاہ ڈالیں تو منظر نہایت ہولناک دکھائی دیتا ہے۔ دنیا تاریکی کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ عرب میں شرک عام تھا، اخلاقی اقدار مٹ چکی تھیں، ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ عورتوں کی عزت پامال تھی، بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ یتیموں پر ظلم ہوتا، خونریزی معمول تھی، جوا، شراب نوشی اور زنا کو معیوب نہیں بلکہ کمال سمجھا جاتا۔ طاقتور کمزور کو کچل دیتا اور قانون جنگل غالب تھا۔ یہی نہیں دنیا کی بڑی طاقتیں روم و ایران بھی اخلاقی زوال اور سیاسی انتشار میں مبتلا تھیں۔ اس تاریکی کے درمیان ایک امید کی کرن چمک رہی تھی۔ آسمانی کتابوں میں آخری نبی کی آمد کا ذکر موجود تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے احمد نامی نبی کی بشارت دی اور اہلِ کتاب کے علماءبھی علامات کے منتظر تھے۔ گویا فضاوں میں یہ پیغام گونج رہا تھا کہ ایک عظیم انقلاب قریب ہے۔
پھر وہ لمحہ آیا جب رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں قدم رکھا اور تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ آپ کی آمد نے جہالت کو علم میں، ظلم کو عدل میں اور شرک کو توحید میں بدل دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب ہونے والوں میں ایسی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں کہ فلک ان پر رشک کرتا تھا۔ انفرادی صفات میں سے طلب علم ، بامقصد زندگی ،صدق و صفا، نیکوکاروی، تواضع ، تحمل، مٹھاس، اخلاص و مروت اور اجتماعی صفات میں سے مساوات ، انصاف ، عفو و درگزر ، ایثار ، اخوت، برائی کا خاتمہ، خوشگوار ازدواجی زندگی ، نفع رسانی ، خدمت خلق ، اپنے اعمال کا محاسبہ ، اخلاق حمیدہ ، ان صفات حسنہ کے ساتھ ایسے مزین ہوئے کہ قرآن مجید نے نبوت سے فیضیاب ہونے والے قیامت تک کے اہل ایمان کے لیے مشعل راہ ٹھہرایا۔ یہی نہیں، اس مہینے کی عظمت مزید بڑھ جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے کئی اہم ترین واقعات اسی میں پیش آئے۔ بعثت کی ابتدا اسی مہینے میں ہوئی جب غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی اور نبوت کے سورج نے کائنات کو منور کیا۔ ہجرتِ مدینہ کا عظیم الشان واقعہ بھی اسی مہینے میں ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر اِسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور پھر وصالِ نبوی بھی اسی مہینے میں ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم 63 برس کی عمر میں 12 ربیع الاول پیر کے دن اپنے رب سے جا ملے۔
آج جب ہم ربیع الاوّل مناتے ہیں تو اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سیرتِ نبوی کی روشنی داخل کریں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کے جو تقاضے ہیں ان کو معلوم بھی کریں اور اس پر عمل بھی کریں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دنیا کی سب محبتوں پر فائق ہے۔ محبت رسول کے تقاضوں میں دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر ہو، نسبتوں کا احترام ہو، حکم رسول پر کسی چیز کو فوقیت نہ دیں۔ اہل بیت اور اصحاب رسول کے ساتھ بھی محبت ہو، تعلیمات نبوی پر عمل کرے اور ان کی باتوں کو اپنائیں۔ جس کے دل میں نبی کا بغض ہو اس سے دشمنی رکھنا، کثرت سے محبوب نبی کا ذکر کرے۔ آقا علیہ السلام سے ملنے کا شوق ہو۔ اُمت محمدیہ کا غم دل میں ہو، دُرودشریف کی کثرت کرتے رہنا۔
لیکن افسوس کہ اس مہینے کے نام پر بے شمار رسومات نے جنم لے لیا ہے۔ چراغاں، جلوس، بے جا خرچ، لاو¿ڈ اسپیکر کی گونج اور ایسے افعال جو شریعت میں کہیں موجود نہیں، ان سب کو ثواب کا کام سمجھ لیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں۔ نہ صحابہ کرامؓ کے عمل میں، نہ تابعین و تبع تابعین کے طریقے میں۔ یہ رسومات شریعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں بلکہ دین میں اضافہ ہیں اور دین میں اضافہ بدعت ہے۔ اصل بہار یہ نہیں کہ گلیاں سجا دی جائیں یا چراغاں کیا جائے، اصل بہار یہ ہے کہ دلوں کو ایمان سے منور کیا جائے، گھروں کو سنتِ نبوی سے آراستہ کیا جائے، کردار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھالا جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ربیع الاوّل کی بہار ہماری زندگیوں میں آئے تو ہمیں قرآن کی تلاوت کو معمول بنانا ہوگا، سنت کے مطابق عبادت کرنی ہوگی، اخلاق و کردار کو سنوارنا ہوگا۔ والدین کا ادب، رشتہ داروں سے صلہ رحمی، یتیموں کی پرورش، غریبوں کی مدد اور عدل و انصاف کو زندگی میں جگہ دینی ہوگی۔ یہی وہ بہار ہے جو دنیا اور آخرت کو سنوار دیتی ہے۔
ربیع الاوّل کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں کو نورِ ایمان سے روشن کریں، اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تر کریں، اپنی محفلوں کو علم و حکمت سے آباد کریں اور اپنی زندگیوں کو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھالیں۔ یہی وہ بہار ہے جو کبھی خزاں میں تبدیل نہیں ہوتی۔
