جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محدود معاشی مواقع کے باوجود مدارس اور ان کے طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کی پہلی معاشی مردم شماری نے سماج کے کئی دلچسپ اور حیران کن پہلوں کو اجاگر کیا ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی معاشی مردم شماری کے مطابق پاکستان بھر میں 36ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہیں۔یہ اعداد و شمار پاکستانی معاشرے میں مدرسوں کے مرکزی کردار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی سے وابستہ سکالر ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری نے کہا کہ چھ لاکھ سے زائد مساجد میں خدمات انجام دینے والے افراد دراصل چھ لاکھ گھرانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ مدارس محض تعلیم نہیں دیتے بلکہ رہائش، کھانا اور علاج کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔
سماجی شعبے میں اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنا غیر معمولی بات ہے۔ماہرین کے مطابق محدود معاشی مواقع کے باوجود مدرسوں اور ان کے طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی محقق احمد اعجاز نے بتایا، سماجی اور معاشی ڈھانچے اتنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں۔
غریب گھرانوں کے بچے مدرسوں میں نہ جائیں تو کہاں جائیں؟۔ مدارس صنعتی ترقی کو بھلے براہِ راست آگے نہ بڑھاتے ہوں لیکن کمیونٹی کے نیٹ ورک اور روزمرہ معیشت میں ان کا کردار مرکزی ہے۔