صہیونی فورسز نے غزہ کا الزیتون محلہ مسمارکرڈالا،بمباری،76شہید

غزہ/تل ابیب/ نیویارک/ ویٹی کن سٹی:غزہ کی سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بصل نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل نے جنوب مشرقی غزہ شہر کے الزیتون محلے میں صرف اگست کے آغاز سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں اس محلے کے 80 فیصد سے زیادہ باشندے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شمالی غزہ کے جبالیا اور جبالیا النزلة میں بھی صورتحال یکساں طور پر ہولناک ہے۔محمود بصل نے وضاحت کی کہ قابض اسرائیل نے 6 اگست سے شروع ہونے والی زمینی کارروائی میں جنوبی الزیتون کو زمین بوس کردیا۔ اس دوران صہیونی فوج بلڈوزروں، بھاری مشینری، بارودی روبوٹوں اور ڈرونز کا استعمال کر رہی ہے۔

روزانہ اوسطاً سات دھماکے کیے جاتے ہیں جبکہ کواڈ کاپٹر ڈرونز گھروں کی چھتوں پر دھماکا خیز مواد گراتے ہیں جس سے تباہی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وحشیانہ کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں خاندان مغربی غزہ یا شمالی حصوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں مگر وہاں بھی کوئی محفوظ مقام نہیں ہے۔

یہ سب کچھ اس صہیونی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ مرحلہ وار غزہ کے باقی حصوں پر دوبارہ قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ ماہرین کی جانب سے کیے گئے سیٹلائٹ تجزیے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ قابض اسرائیل نے جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ شہر میں کم از کم 36 ہزار عمارتیں تباہ کر دی ہیں جو وہاں موجود کل عمارتوں کا 80 فیصد بنتی ہیں۔

ادھرغزہ کی وزارت صحت نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 76 فلسطینی شہید اور 339 زخمی ہوگئے۔

وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان 24 گھنٹوں میں شہداء کی فہرست میں 22 ایسے معصوم فلسطینی بھی شامل ہیں جو محض امداد کے حصول کے لیے امدادی مراکز کی طرف بڑھ رہے تھے مگر قابض اسرائیلی فوج نے ان کی زندگیوں کو بے رحمی سے ختم کردیا۔

امداد کی تلاش میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 2 ہزار 180 تک جا پہنچی ہے جبکہ اس دوران زخمیوں کی تعداد 16 ہزار 46 سے تجاوز کر گئی۔بیان میں مزید بتایا گیا کہ غزہ کے ہسپتالوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قحط اور بدترین غذائی قلت کے باعث مزید 4 فلسطینیوں کی اموات درج کی ہیں جن میں دو معصوم بچے بھی شامل ہیں۔

اس طرح بھوک اور غذائی قلت سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد 317 تک پہنچ گئی ہے جن میں 121 بچے شامل ہیں۔وزارت صحت نے بتایا کہ 18 مارچ 2025ء سے آج تک شہداء کی تعداد 11 ہزار 121 اور زخمیوں کی تعداد 47 ہزار 225 تک پہنچ گئی ہے۔

اس طرح 7 اکتوبر2023ء سے جاری قابض اسرائیل کے اس خونی یلغار میں شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 62 ہزار 966 اور زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 59 ہزار 266 ہو گئی ہے۔

ادھر اسرائیلی اخبارہیریٹزکے مطابق جمعرات کو فوج کے سربراہ ایال ضمیر کے گھر کے سامنے درجنوں مظاہرین نے احتجاج کیا جس کے دوران مظاہرین نے سڑک پر سرخ رنگ پھینکا اور مطالبہ کیا کہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضے کے حکومتی منصوبے کو آگے نہ بڑھایا جائے۔

پولیس نے مظاہرے کے دوران پانچ مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔رپورٹ کے مطابق احتجاج کا اہتمام دو اسرائیلی این جی اوز”اسٹینڈنگ ٹوگیدر”اور”سولجرز فار ہوسٹیجز” نے کیا تھا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ فوجی سربراہ اور اعلیٰ کمانڈرز ماضی میں واضح طور پر خبردار کرچکے ہیں کہ غزہ پر دوبارہ قبضے سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں بڑھیں گی اور یرغمالیوں و فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔اسٹینڈنگ ٹوگیدرنے غزہ پر قبضے کے حکومتی منصوبے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے اسرائیل مزید سنگین بحران کا شکار ہوسکتا ہے ۔

جبکہ اقوام متحدہ میں چین کے نائب مستقل نمائندے گینگ شوانگ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں تقریباً 2 ملین افراد انسانی بحران کا شکار ہیں جبکہ روزانہ درجنوں بے گناہ جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تشدد سے امن ممکن نہیں اور چین تمام شہریوں کو نشانہ بنانے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ تمام بارڈر کراسنگ کھولے اور اقوام متحدہ کو مکمل امدادی رسائی دے۔

چین نے دو ریاستی حل کی حمایت دہراتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری جنگ بندی اور انسانی بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

پوپ لیو نے عالمی برادری سے تقریباً دو سال سے جاری غزہ تنازع ختم کرنے کے لیے ایک پرزور اپیل کی اور ایک مستقل جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا۔پوپ نے ویٹی کن میں اپنے ہفتہ وار سامعین سے گفتگو میں کہا کہ میں دوبارہ ایک پرزور اپیل جاری کرتا ہوں تاکہ مقدس سرزمین میں تنازع کا خاتمہ ہو جو بہت زیادہ دہشت، تباہی اور موت کا سبب بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے، ایک مستقل جنگ بندی ہو، انسانی امداد کے محفوظ داخلے کی سہولت فراہم کی جائے اور بین الاقوامی انسانی قانون کا مکمل احترام کیا جائے۔

علاوہ ازیں قابض اسرائیل کے مسلح آبادکاروں نے جمعرات کے روز وسطی مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے مشرق میں ایک فلسطینی چرواہے پر حملہ کر کے اس کا پورا ریوڑ چرالیا۔ چرواہے کے پاس تین سو بھیڑیں اور بکریاں تھیں جنہیں صہیونی آبادکار زبردستی لے گئے۔مقامی شہری خالد غرہ نے بتایا کہ وہ اپنے گاؤں کفر مالک کے قریب بھیڑیں چرا رہا تھا کہ اچانک کئی صہیونی آبادکاروں نے حملہ کردیا۔

انہوں نے اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس کے جسم پر شدید چوٹیں آئیں اور اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔خالد غرہ نے کہا کہ آبادکار اس کا پورا ریوڑ چرا کر علاقے سے فرار ہو گئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں۔ قابض اسرائیل کے آبادکار اکثر فلسطینی گاؤں اور چراگاہوں پر حملے کرتے ہیں، ریوڑ چرا لیتے ہیں اور چرواہوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تاکہ فلسطینیوں پر زندگی تنگ کر کے انہیں اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔

کلب برائے اسیران فلسطین نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام صحافیوں کے خلاف اپنی درندہ صفت پالیسیوں میں شدت پیدا کر رہے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی صحافیوں کی تعداد بڑھ کر 55 ہوگئی ہے ان میں سے 50 صحافیوں کو 2023ء میں شروع ہونے والی فلسطینی نسل کشی کی جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا جن میں ایک خاتون صحافی بھی شامل ہے۔

کلب برائے اسیران نے ایک بیان میں بتایا کہ قابض اسرائیل نے اس جاری جنگی مہم کے آغاز سے ہی صحافیوں کی گرفتاریوں اور انہیں ہدف بنانے کی مہم میں غیر معمولی شدت پیدا کی ہے۔صرف نسل کشی کی اس جنگ کے دوران مجموعی طور پر 197 صحافیوں کو یا تو گرفتار کیا گیا یا حراست میں لیا گیا۔

گذشتہ شب صحافی اسید عمارنہ کی گرفتاری کے بعد یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہے جبکہ قابض اسرائیلی فوج نے جمعرات کو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر الخلیل میں 6ا سکولوں میں زبردستی گھس کر کئی اساتذہ کو گرفتار کر لیا ہے۔

مقامی ذرائع نے بتایا کہ قابض فوج نے الخلیل کے الشیخ محلے اور جنوبی علاقے میں واقع چھ اسکولوں میں تلاشی لی، جہاں سے انہوں نے تصاویر اور درسی کتابیں ضبط کیں۔اس دوران چھاپے کے دوران کئی اساتذہ کو بھی حراست میں لیا گیا۔

فلسطینی وزارت تعلیم و اعلیٰ تعلیم نے ان اسکولوں میں قابض اسرائیلی فوج کے داخلے، اساتذہ کو گرفتار کرنے اور ان پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔وزارت نے زور دیا کہ یہ اقدامات بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی ایک لرزہ خیز ویڈیو نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں قابض اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے ایک نہتے فلسطینی نوجوان کو قریب سے نشانہ بنا کر قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ نوجوان صرف اس لیے قابض فوج کے نشانے پر آیا کہ وہ غزہ میں امدادی سامان کے ایک مرکز تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ویڈیو میں صاف سنا جا سکتا ہے کہ ایک فوجی اپنے ساتھی نشانہ باز سے کہتا ہے کہ ”کوئی غلطی نہ کرنا”۔ اس کے فوراً بعد گولی چلتی ہے اور نوجوان زمین پر گر پڑتا ہے۔

اسی منظر میں دوسرے فوجیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جو اسنائپر کو اکسا رہے تھے ”وہ محور کی طرف بڑھ رہا ہے، تم خطا نہیں کر سکتے، اجازت مل گئی ہے، ڈرائیور کے اوپر ،اوہ، لگتا ہے وہ گر گیا”۔ اس کے ساتھ ہی صہیونی فوجیوں کے قہقہے اور خوشی کے نعرے گونج اٹھتے ہیں۔یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوتے ہی دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے ”نہتے شہری کا سوچا سمجھا قتل قرار دیا ہے”۔