صہیونی فوج نابلس میں داخل،غزہ میں گولہ باری،33شہید

غزہ/پیرس/برسلز/کوپن ہیگن/ریاض/مقبوضہ بیت المقدس/واشنگٹن:اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز درجنوں فوجیوں کی مدد سے نابلس کے قدیمی شہر میں فوجی کارروائی کا آغازکردیا۔فوجی کارروائی میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی بروئے کار ہیں۔ نابلس کا علاقہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع ہے۔

اسرائیلی ریاست جس نے 1967 ء سے مغربی کنارے پر قبضہ کر رکھا ہے پچھلے کچھ عرصے سے اس کے رہنے والے فلسطینیوں کو بھی خصوصی ہدف بنائے ہوئے ہے تاکہ انہیں جبری انخلا پر مجبور کر کے مغربی کنارے کے بارے میں اپنے اگلے منصوبوں کو آگے بڑھا سکے۔

قابض اسرائیلی فوج نے نابلس میں شروع کی گئی فوجی کارروائی کی تصدیق کر دی ہے تاہم اے ایف پی نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے فوجی کارروائی کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے۔ نابلس کے گورنر غسان دغلاس نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی اس منہ اندھیرے شروع کی گئی فوجی کارروائی کا مقصد سوائے اپنی فوجی طاقت کے اظہار اور مقامی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے کچھ نہیں ہے۔

ایک عینی شاہد جس نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا کا کہنا تھا فوجیوں نے ایک بوڑھے فلسطینی اور ان کے ساتھ ایک ضعیف العمر فلسطینی خاتون کو ان کے اپنے گھر سے بے دخل کر دیا ہے۔فلسطینی میڈیکل ریلیف کے سر براہ غسان حمدان نے کہا گھروں اور دکانوں میں جبری گھس کر تلاشی لی جارہی ہے۔

پرانے نابلس شہر میں فوجیوں نے فلسطینیوں کے کئی گھروں پر قبضہ کر کے ان میں فوجی چوکیاں قائم کر لیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی فوٹیجز میں دکھایا گیا ہے کہ فوجی گاڑیاں شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گشت کر رہی ہیں تاہم اسرائیلی فوج نے فلسطینی حکام کو اطلاع دی تھی کہ شام چار بجے یہ آپریشن ختم کر دیا جائے گا۔

نابلس کے مشرقی دروازے سے عینی شاہدوں نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی اندھا دھند چڑھائی اور گھروں میں گھسنے کی کوشش روکنے کے لیے مقامی افراد جمع ہوئے تو فوجی جارحیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جواباً مقامی لوگوں نے فوجیوں پر پتھرائو کیا۔اسرائیلی فوج کی طرف سے مقامی لوگوں پر فائرنگ کی جاتی رہی اور زہریلی آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔

فلسطینی ہلال احمر کے مطابق کئی فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ ادھراسرائیلی فوج نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ غزہ شہر کو خالی کرانا ”نا گزیر” ہے۔ یہ بیان اس منصوبے کے تحت سامنے آیا ہے جسے بنیامین نیتن یاہو کی حکومت نے منظور کیا ہے اور جس کے مطابق فوج محصور اور تباہ حال غزہ کی پٹی کے سب سے بڑے شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

فوج کے ترجمان آویخای ادرعی نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ جنوبی حصے کی وسیع خالی جگہوں کی طرف منتقل ہوں، جیسا کہ وسطی کیمپوں اور المواصی کے علاقے میں ہے۔اسی دوران عینی شاہدین نے بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسرائیلی ٹینک غزہ شہر کے نواحی علاقے میں داخل ہوئے اور گھروں کو تباہ کیا، جس کے بعد مقامی لوگ فرار پر مجبور ہوگئے۔

رہائشیوں کے مطابق ٹینک رات گئے غزہ شہر کے شمالی حصے میں عبادالرحمن محلے میں گھسے اور گھروں پر گولا باری کی۔ اس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور درجنوں دوسرے افراد شہر کے اندرونی حصے کی طرف منتقلی پر مجبور ہو گئے۔

فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق بدھ کی صبح سے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر جاری اسرائیلی فضائی حملوں میں 33 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ اسرائیل کی جارحیت اورناکہ بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک کے نتیجے میں مزید 10 فلسطینی بچے شہید ہوگئے۔

اس طرح جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 313 تک پہنچ گئی ہے جن میں 119 بچے ہیں۔دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائی کو خطرناک اضافہ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔

رام اللہ میں اسرائیلی چھاپے کے دوران درجنوں فلسطینی زخمی ہوئے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جاری بمباری اور محاصرے سے اب تک 62 ہزار 819 فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 58 ہزار 629 زخمی ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم یہودی مخالف بیانیے کو ہتھیار بنانے سے گریز کرے۔فرانسیسی صدر میکرون نے نیتن یاہو پر واضح کردیا کہ فرانس میں یہودی برادری کیخلاف شدت پسندی کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا، نیتن یاہو اسرائیل اور فرانس کے درمیان تنازع کو ہوا نہ دیں۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اسرائیلی وزیر اعظم کو خط میں پیغام دیا کہ اسرائیلی وزیراعظم کو غزہ میں دبائو کا سامنا ہے اس لئے فرانس کے داخلی معاملے میں دخل اندازی کر رہا ہے۔دریں اثناء حماس نے تردید کی ہے کہ غزہ کے نصر ہسپتال پر اسرائیلی حملے میں شہیدہونے والے فلسطینیوں میں کوئی عسکریت پسند تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حملے میں چھ عسکریت پسند شہید ہوئے ہیں تاہم وہ اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ پانچ صحافیوں سمیت عام شہری کیسے مارے گئے۔

حماس کے سرکاری میڈیا آفس نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے جن چھ فلسطینیوں کو عسکریت پسند قرار دیا ہے ان میں سے ایک ہسپتال سے کچھ فاصلے پر واقع المواصی میں مارا گیا جبکہ دوسرا مختلف وقت میں کسی اور جگہ شہیدہوا۔

علاوہ ازیں اسرائیلی محاصرے اور عالمی حکومتوں کی خاموشی کے بعد اب دنیا بھر کی سول سوسائٹی میدان میں آ گئی ہے۔ رواں ماہ کے آخر میں مختلف ممالک سے درجنوں کشتیاں غزہ کی طرف روانہ ہوں گی تاکہ محصور فلسطینی عوام تک براہِ راست انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔

یہ مہم گلوبل صمود فلوٹیلا کے نام سے چلائی جا رہی ہے جو 44 ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ کچھ کشتیاں 31 اگست کو اسپین سے روانہ ہوں گی جبکہ دیگر 4 ستمبر کو تیونس سے نکلیں گی۔ اس اتحاد میں تین بڑے عالمی اقدامات کو یکجا کیا گیا ہے۔

فریڈم فلوٹیلا کولیشن، گلوبل موومنٹ فار غزہ اور مغرب صمود قافلہ۔ ان سب کا مقصد اسرائیل کے سمندری، فضائی اور زمینی محاصرے کو توڑنا اور انسانی جانیں بچانے کے لیے خوراک و ادویات پہنچانا ہے۔اس عالمی اپیل کو سیاستدانوں، فنکاروں، دانشوروں اور سماجی کارکنوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

ادھراسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے یورپی حلقوں میں بڑھتی تشویش کے پس منظر میں 209 سے زائد یورپی سابق سفارت کاروں جن میں 110 سفیر اور 25 اعلیٰ سطح کے ڈائریکٹر شامل ہیں نے یورپی یونین کے اداروں کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔

اس خط میں اسرائیل پر دبائو ڈالنے اور جنگ فوری روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ ہو اور عالمی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائے۔

برطانوی اخبار کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں کئی اہم شخصیات شامل ہیں جنہوں نے حساس عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، ان میں یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس کے سابق سیکرٹری جنرل آلان لو روے اور یورپی کمیشن کے سابق سیکرٹری جنرل کارلو تروجان بھی شامل ہیں۔

مکتوب میں کہا گیا کہ یورپی یونین کی خاموشی یا سست روی اس کی بین الاقوامی اور اندرونی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔مکتوب میں نو ممکنہ اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن میں اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کے لائسنس معطل کرنا، غیر قانونی طریقے سے آنے والی مصنوعات و خدمات پر تجارتی پابندیاں لگانا اور یورپی ڈیٹا سینٹرز کو اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے میں سرگرمیوں سے متعلق معلومات وصول کرنے یا پراسیس کرنے سے روکنا شامل ہے۔ مزید کہا گیا کہ اگر یورپی یونین اجتماعی موقف اختیار نہ کر سکے تو رکن ممالک انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپوں کی صورت میں کارروائی کریں۔

ڈنمارک کی وزیراعظم میٹے فریڈرکسن نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی ریاست جمہوری اصولوں پر قائم ہوتی ہے تو ڈنمارک اس کو تسلیم کرنے کے امکان کو رد نہیں کرتا۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق میٹے فریڈرکسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر رہے۔

ہم اس کے کافی عرصے سے حامی ہیں۔ یہ وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین دہانی کرنی ہو گی کہ یہ ایک جمہوری ریاست ہو گی۔سعودی کابینہ نے فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت سے نمٹنے کیلئے جدہ میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے موقف کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق کابینہ کا اجلاس شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدرت منعقدہوا۔اجلاس میں بین الاقوامی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے تشدد کے خاتمے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری مداخلت پر زوردیاگیا ۔

کابینہ کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مصری صدر عبد الفتاح السیسی سے ملاقات اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے سے بھی آگاہ کیا گیا۔کابینہ نے زور دیا کہ کسی احتساب کے بغیر اسرائیلی خلاف ورزیاں بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی قانون کو سبوتاژ، سلامتی و امن کیلئے خطرہ ہیں۔

فلسطینی صدرنے اسرائیل کے مغربی کنارے میں جاری خطرناک اقدامات اور کشیدگی کی مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جرائم روکے جائیں اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی نئی لہر کو روکا جاسکے۔

عرب ٹی وی کے مطابق فلسطینی ایوان صدر کی طرف سے جاری بیان میں خبردار کیاگیا ہے کہ اسرائیلی کشیدگی کی تازہ ترین کارروائیاں جن میں رام اللہ اور الخلیل میں دھاوے، شہریوں کی گرفتاری، انہیں گولیاں مار کر زخمی کرنا، املاک کی تباہی اور منی چینجرز اور بینکوں سے بڑی مقدار میں رقوم کی چوری خطرناک ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی نے کہا کہ یہ جارحانہ حملے فلسطینی عوام اور ان کی زمین پر ایک مہلک کارروائی ہیں اور اسرائیلی حکومت اس کشیدگی کی مکمل ذمہ دار ہے۔فلسطینی صدر نے امریکی انتظامیہ سے کہا کہ وہ اسرائیل کو اس بلاجواز کارروائی سے روکنے کے لیے اقدامات کرے اور مغربی کنارے میں جاری تمام جرائم کو فوری بند کرائے جو غزہ میں تباہی اور قحط کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کیلئے امریکا کے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ ہم غزہ میں جنگ کو یقیناً اس سال کے اختتام سے پہلے کسی نہ کسی طریقے سے ضرور ختم کر دیں گے۔

فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وٹکوف نے کہا کہ وائٹ ہائوس میں صدر کی سربراہی میں بڑی میٹنگ ہونے جا رہی ہے، ہم ایک نہایت جامع منصوبہ تیار کر رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگ دیکھیں گے کہ یہ کتنا مضبوط اور کتنا نیک نیتی پر مبنی ہے، اور یہ صدر ٹرمپ کے انسانی ہمدردی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے