اسرائیل امن منصوبے سے انکاری،مجاہدین کے حملے، کئی صہیونی فوجی ہلاک وزخمی

غزہ/تل ابیب/جنیوا/قاہرہ/دبئی/ریاض:فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے خان یونس کے علاقے میں ہونے والی شدید جھڑپ میں اسرائیلی فوج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق القسام بریگیڈز نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے مزاحمت کاروں نے خان یونس کے جنوب مشرق میں ایک نئی قائم شدہ اسرائیلی فوجی پوزیشن پر چھاپہ مار کارروائی کی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ مزاحمت کاروں نے قابض اسرائیلی فوجیوں کو قریب سے ہلکے ہتھیاروں اور دستی بموں سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا جبکہ ایک اسنائپر نے اسرائیلی مرکاوا ٹینک کے کمانڈر کو نشانہ بنایا۔القسام بریگیڈز کی جانب سے مزید کہا کیا کہ اسرائیلی فوجیوں کی مدد کو آنے والے فوجی دستے کے درمیان ایک مزاحمت کار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔

القسام بریگیڈز کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں مارٹر گولے، اینٹی ٹینک شیلز اور دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا اور لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی جس کے بعد مزاحمت کار واپس آگئے ۔

ادھراسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے غزہ کے حوالے سے مصری اور قطری وساطت کاروں کی جانب سے پیش کردہ تازہ ترین جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔نیتن یاہو کے دفتر کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے حماس کی جانب سے منظور شدہ تازہ ترین غزہ تجویز پر اپنی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔

ذرائع نے بتایا کہ نیتن یاہو نے جزوی معاہدے کو رد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی یرغمالی کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے جبکہ اسرائیلی فوج کے بعد وزارت دفاع نے بھی غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دیدی، 60 ہزار ریزرو فوجیوں کی طلبی کا حکم دیدیا گیا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ سٹی پر قبضے کے آپریشن کو چریٹس آف گِدیون بی کا نام دیا گیا ہے۔دریں اثناء قابض اسرائیل کی فوج کے ”سول ایڈمنسٹریشن” یونٹ کے اعلیٰ منصوبہ بندی کونسل نے بھی مشرقی بیت المقدس کے متنازعہ علاقے E1 میں نوآبادیاتی تعمیراتی منصوبے کی منظوری دے دی جس میں 3401 سے زائد رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ ایک نئی کالونی ”عشاہل” قائم کی جائے گی، جس میں 342 رہائشی یونٹ اور عوامی عمارتیں بنائی جائیں گی۔”ناؤ پیس موومنٹ” نے کہا ہے کہ E1 میں نوآبادیاتی تعمیرات کی منظوری انتہائی تیزی سے دی گئی اور اس منصوبے کو ”خاص طور پر قاتل” قرار دیا کیونکہ یہ ممکنہ امن اور دو ریاستی حل کے مستقبل کے لیے خطرناک ہے کیونکہ یہ غرب اردن کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور رام اللہ، مشرقی القدس اور بیت لحم کے درمیان ترقی پذیر میٹرو لائن کو روکتا ہے۔

علاوہ ازیںغزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 60 فلسطینی شہید اور 343 زخمی ہوگئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق شہید ہونے والوں میں امداد کے حصول کی کوشش کرنے والے 31 افراد بھی شامل ہیں۔

وزارت نے بتایا کہ اسرائیل کے تازہ حملوں کے بعد کئی شہری ملبے تلے دبے ہیں جبکہ ایمبولینس اور ریسکیو اہلکار ان تک پہنچنے میں ناکام ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 62 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ایک لاکھ 56 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

مزید یہ کہ امداد کے حصول کے دوران اسرائیلی حملوں میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی شہید اور 14 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق غذائی قلت اور بھوک سے بھی 266 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے کہا ہے کہ غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں18ہزار885بچے شہید ہو چکے ہیں۔عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی(یو این آر ڈبلیو اے )نے کہا کہ غزہ میں بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے اور اسرائیل کی جانب سے اشد ضروری امداد اور طبی سامان کی ناکہ بندی کی وجہ سے یہاں کے مکین خصوصاً بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔

ادار ے نے کہا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کے دوران غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول لاکھوں لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کاکام کر رہے تھے تاہم اب یہ پناہ گاہیں بھی غزہ کے مکینوں کے لئے جن میں بہت سے بچے شامل ہیں،مقتل بن چکی ہیں۔

رپورٹ میں یونیسیف کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے اور حملے دوبارہ شروع کرنے کے بعد گزشتہ پانچ ماہ سے غزہ میں ہر ماہ اوسطاً 540 سے زیادہ بچے شہید ہو گئے ہیں۔

عالمی انتباہات کے باوجود اسرائیلی افواج غزہ شہر پر حملوں میں تیزی لا رہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں امدادی مراکز پر جمع فلسطینی مارے جا رہے ہیں جبکہ فلسطینی فٹ بال فیڈریشن کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق فلسطینی کھلاڑی بھی غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل کے جاری اجتماعی قتل عام سے محفوظ نہیں رہے۔

گزشتہ تقریباً دو سال سے جاری اس وحشیانہ جنگ میں 673 فلسطینی کھلاڑیوں نے اپنی جان قربان کر دی جبکہ قابض فوج نے انسانیت کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف افراد بلکہ کھیلوں کے مراکز کو بھی نشانہ بنایا۔

شہداء میں 324 کھلاڑی فیڈریشن کے رکن تھے جن میں کھلاڑی،کوچ، منتظم، ریفری اور کلب کی منیجنگ کمیٹی کے ارکان شامل ہیں۔فٹ بال فیڈریشن کے مطابق قابض اسرائیل نے 264 کھیلوں کے مراکز تباہ کیے جن میں سے 184 مکمل طور پر اور باقی کوجزوی طور پر نقصان پہنچا۔

علاوہ ازیںحماس نے بدھ کے روز بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا تاکہ قابض اسرائیل کی جیلوں میں جاری جرائم کو روکا جا سکے جو ایک جامع پالیسی کے تحت حراست میں لیے گئے فلسطینی قیدیوں کی قیادت کو ختم کرنے اور ان کے قومی کردار کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

حماس کے رہنما عبد الرحمن شدید نے کہا کہ قابض اسرائیل ایک بے مثال مظالم کی مہم چلا رہا ہے جس میں انفرادی قید، بھوک، طبی غفلت، مارپیٹ، توہین، علاج اور نیند سے محرومی شامل ہیں اور یہ سب قیدیوں، خاص طور پر قیدیوں کی قیادت کرنے والے رہنمائوں کے خلاف وحشیانہ طریقوں سے کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے تمام علاقوں میں قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ اسرائیل امدادی سامان کی رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور عسکری حملے جاری ہیں جو مزید فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کر رہے ہیں۔

دفتر کے ترجمان ثمین الخیطان نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال براہ راست اسرائیلی حکومت کی پالیسی کا نتیجہ ہے جو انسانی امداد کی رسائی کو روک رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حالیہ ہفتوں میں غزہ میں پہنچنے والی امداد کی مقدارقحط سے بچنے کے لیے ضروری مقدار سے بہت کم ہے۔

ادھرمصر نے کہا ہے کہ ریاست کے قیام کے لئے غزہ میں عالمی افواج کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ۔عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز تیار کرنے کے لئے حماس اور قطری ثالث کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

مصری وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ناقابل قبول حالات موجودہ وقت میں غزہ پر ایک جامع معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں، انہوں نے کہا کہ غزہ سے متعلق مجوزہ تجویز کچھ ترامیم کے ساتھ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے پیپر پر ہی مبنی ہے، ہم نے ایسے خیالات پیش کیے ہیں جو اگر اسرائیل کی سیاسی مرضی ہو تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کا غزہ میں 75 واں ایئر ڈراپ آپریشن مکمل ہو گیا جس کے تحت خوراک، ہنگامی طبی امداد اور ضروری امدادی اشیا فضا سے گرائی گئیں۔ عرب ٹی وی کے مطابق یہ امدادی ایئر ڈراپ آپریشن اردن کے تعاون سے کیاگیا، جرمنی، اٹلی، فرانس، ہالینڈ،بیلجیم اور ملائیشیا اس میں شامل تھے۔

یہ امدادی سامان امارات کے خیراتی اداروں کے تعاون سے بھیجا گیا تاکہ غزہ میں مشکل صورتحال سے دوچار فلسطینیوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔اب تک مجموعی طور پر 4 ہزار 12 ٹن سے زیادہ امدادی سامان غزہ پہنچایا جا چکا ہے جس میں خوراک اور اشیا ضروریہ شامل ہیں۔

رفح کی راہداری پر دوسری جانب سینکڑوں ایسے ٹرک کئی کئی دنوں اور ہفتوں سے کھڑے ہیں تاکہ اسرائیلی ریاست کے حکام سے اجازت کے بعد غزہ میں داخل ہو کر انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کر سکیں۔

امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس ناکہ بندی اور جگہ جگہ اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ کے جنگ زدہ لوگوں کے لیے خوراک لے کر جانا سخت تکلیف دہ کام ہے۔ خوراک کی فراہمی انتہائی سست روی کا شکار ہے اس لیے غزہ میں انسانی بحران کا سامنا ہے۔

اسرائیل اقوام متحدہ اور دیگر انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے اداروں کے موقف سے ہٹ کر مسلسل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ خوراک اور امدادی سامان کو نہیں روک رہا۔اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا تھا کہ متعدد ٹرک ڈرائیور اور مصری ہلال احمر کے رضاکار رفح کے اس پار انتظار میں ہیں کہ انہیں کب غزہ جانے کی اجازت ملے گی۔

قبل ازیںمشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے غزہ کی جنگ روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔وٹکوف نے بدھ کو گفتگو میں کہا کہ 20 قیدیوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس واپس لایا جانا چاہیے، اسی طرح مناسب تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے اور تباہ حال فلسطینی علاقے کی تعمیر نو کی جانی چاہیے۔

انھوں نے زور دیا کہ غزہ کی جنگ کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ختم ہونا چاہیے۔امریکی ایلچی نے مزید کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ تمام قیدی غزہ سے واپس لائے جائیں۔