تل ابیب/واشنگٹن/ریاض/غزہ/آکلینڈ/قاہرہ:اسرائیلی وزیرخزانہ اسموٹریچ نے راتوں رات مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے دائیں بازو کے شدت پسند وزیر خزانہ بیتزالل اسموٹریچ نے مغربی کنارے کے حساس ترین علاقے E1 میں غیر قانونی یہودی بستی کے منصوبے کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ یہ قدم فلسطینی ریاست کے تصور کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔
اسرائیلی وزیر نے اپنے متنازع اعلان میں یہ بھی بتایا کہ وہ 3 ہزار سے زائد یہودی آبادکاروں کو اس علاقے میں رہائشی پلاٹس کی منظوری دیں گے جو معلیٰ ادومیم بستی کو مقبوضہ بیت المقدس سے جوڑ دے گا۔یاد رہے کہ اسرائیل کا اس علاقے میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کا دیرینہ رہائشی منصوبہ کئی دہائیوں سے عالمی دباؤ کے باعث رکا ہوا تھا لیکن اب اسرائیلی وزیر نے اس پر عمل درآمد اعلان کردیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اسموٹریچ نے کہا کہ یہ منصوبہ حقیقت میں فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کر دیتا ہے کیونکہ نہ کوئی پہچاننے والا بچا ہے اور نہ کوئی پہچانے جانے والا۔فلسطینی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو نسل کشی، جبری بے دخلی اور ناجائز قبضے کے جرائم کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ”گریٹر اسرائیل” کی پالیسی کا عکاس ہے۔
ادھر یشا کونسل کے چیئرمین اسرائیل گانٹز اور معلیٰ ادومیم کے میئر گائے یفرخ نے اس اقدام کو ”تاریخی اور زبردست کامیابی اور یہودی بستیوں کی تحریک کی مضبوطی میں انقلابی قدم” قرار دیا۔دوسری جانب بین الاقوامی مبصرین نے بھی اعتراض اْٹھایا کہ E1 منصوبہ مغربی کنارے کو شمال اور جنوب میں تقسیم کر دے گا جس سے ایک متصل فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی علاقوں کو کاٹ کر رکھ دے گا اور یروشلم، بیت لحم اور رملہ جیسے شہروں کے درمیان رابطہ ختم ہو جائے گا۔خیال رہے کہ اسرائیلی نگرانی ادارے پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز مغربی کنارے میں 4,030 نئے رہائشی یونٹس کی منظوری دی گئی۔ صرف معلیٰ ادومیم میں 3,300 یونٹس کی منظوری سے وہاں کی آبادی میں 33 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
دریں اثناء اسرائیل کی جانب سے انڈونیشیا،صومالی لینڈ، یوگنڈا، جنوبی سوڈان اور لیبیا سمیت 5 ممالک سے بات چیت جاری ہے تاکہ غزہ پٹی کے فلسطینیوں کو ملک سے نکالنے کا معاہدہ کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق چند ممالک نے پہلے سے زیادہ غزہ پٹی سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
ایک سفارتی ذرائع نے اسرائیلی چینل کو بتایا کہ فلسطینیوں کی آبادکاری سے متعلق انڈونیشیا بالخصوص صومالی لینڈ نے کھلے رویے کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔رپورٹ کے مطابق صومالی لینڈ جو صومالیہ سے علیحدہ ہونے والا خطہ ہے اس معاہدے کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
اسرائیل نے جنوبی سوڈان میں غزہ کے باشندوں کی آبادکاری پر بات کی تھی جس پر سوڈان کی حکومت نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اس کی سرکاری پالیسی کی عکاسی نہیں کرتا۔ادھریتن یاہو کے گریٹر اسرائیل کے حوالے سے بیان نے بین الاقوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کیونکہ گریٹر اسرائیل کا تصور مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی عدم استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
گریٹر اسرائیل کا مطلب صرف موجودہ اسرائیل نہیں بلکہ وہ تمام علاقے ہیں جنہیں اسرائیل نے 1967 ء کی چھ روزہ جنگ میں فتح کیا تھا۔مصر، اردن اور سعودی عرب نے گریٹر اسرائیل کے بیان پر کہا کہ یہ نظریہ خطے میں امن کی کوششوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ”ایس پی اے” کے ذریعے جاری بیان میں کہا کہ مملکت بنجمن نیتن یاھو کے ان بیانات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور قابض اسرائیل کے تمام استعماری اور توسیع پسندانہ منصوبوں کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔
بیان میں فلسطینی عوام کے اپنے آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کے تاریخی اور قانونی حق پر زور دیتے ہوئے عالمی برادری کو متنبہ کیا گیا کہ قابض اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کھلی خلاف ورزیاں بین الاقوامی قانون کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں اور خطے کے امن کو سنگین خطرات لاحق کر رہی ہیں۔
مصری وزارت خارجہ نے بھی ان بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچ خطے میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش اور امن کے راستے کو بند کرنے کا واضح اعلان ہے۔ مصر نے واضح کیا کہ امن کا واحد راستہ مذاکرات کی بحالی اور غزہ پر جاری جنگ کے خاتمے کے ذریعے 4 جون 1967ء کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔
اردنی وزارت خارجہ نے نیتن یاھو کے بیانات کو اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہیں بلکہ عرب ریاستوں کی خودمختاری کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔
ترجمان سفیان القضاہ نے کہا کہ یہ وہم و گمان پر مبنی دعوے نہ اردن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کو کم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ایسے بیانات کی واضح مذمت کرے اور ان کے سنگین نتائج سے خبردار کرے۔
قطر نے بھی ان بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابض اسرائیل کی تکبر پر مبنی پالیسی، بحران پیدا کرنے اور ریاستوں کی خودمختاری پامال کرنے کی علامت ہیں۔ قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ جھوٹے دعوے اور اشتعال انگیز بیانات عرب عوام کے جائز حقوق کو کم نہیں کر سکتے۔
قطر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرے جو خطے کو مزید تشدد اور افراتفری کی طرف دھکیل رہی ہیں۔عرب لیگ کی جنرل سیکرٹریٹ نے ان بیانات کو عرب ریاستوں کی خودمختاری پر کھلا حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ پورے خطے کے امن و استحکام کو تہ و بالا کرنے اور عرب قومی سلامتی کو براہِ راست خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہے۔
عرب لیگ نے اسے استعماری ذہنیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ ان بیانات کا سخت نوٹس لے۔اقوام متحدہ کے حکام نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظریہ دو ریاستی حل کی مخالفت کے مترادف ہے۔اسی طرح یورپی یونین نے بھی گریٹر اسرائیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی مشن جیسے الفاظ سیاسی توسیع پسندی کو جواز فراہم کر سکتے ہیں۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن بیک ڈور ڈپلومیسی میں نیتن یاہو پر دبائو بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے نام نہاد ”گریٹراسرائیل” کے خواب کی حالیہ تشریح جس میں مصر، اردن اور شام سمیت کئی عرب ممالک کی سرزمین پر قبضے کا اعلان نما عندیہ دیا گیا ہے، دراصل اس صہیونی ریاست کی حقیقی درندگی، توسیع پسندانہ عزائم اور خطے کی تمام ریاستوں اور عوام کے لیے مہلک خطرے کو بے نقاب کرتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے ایک بیان میں حماس نے کہا کہ یہ فسطائی اور نسل پرستانہ دعوے عرب دنیا سے کھلے اور دوٹوک موقف کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس میں فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کے مظلوم عوام کی عملی مدد، قابض اسرائیل سے تمام تر تعلقات کا فوری خاتمہ، سفیروں کی واپسی، ہر قسم کے ذلت آمیز تعلقاتِ معمول پر لانے کے اقدامات کو روکنے اور ایک متحدہ محاذ کی تشکیل شامل ہونی چاہیے جو صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو ہر قیمت پر ناکام بنائے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ نیتن یاھو کا اس مجرمانہ نظریے کو اپنی ”تاریخی اور روحانی ذمہ داری” قرار دینا اس کی ذہنی انحطاط اور جنون کی انتہا کی علامت ہے۔ یہ وہی صہیونی ٹولہ ہے جو آج غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ قتل عام اور بھوک کے ہتھیار سے نسل کشی کر رہا ہے اور اپنی جارحیت کو پورے خطے میں پھیلانے کے درپے ہے۔
حماس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ان مجرمانہ بیانات کی مذمت کرے، نیتن یاھو اور اس کی حکومت کو لگام دے، غزہ میں نہتے شہریوں کے خلاف جاری درندہ صفت جنگ کو روکے اور خطے کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا سدباب کرے۔
حماس کے عہدیدار اسماعیل الثواب نے کہا ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ سٹی میں جارحانہ پیش قدمی کر رہی ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسماعیل الثواب نے اسرئیلی فوج کی جانب سے کیے جانے والے نئے حملوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل زمینی حقائق کو طاقت کے ذریعے بدلنے کے لیے جلا دو کی پالیسی پر عمل اور شہری املاک کی مکمل تباہی کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسری جانب غزہ پر اسرائیل کی جانب سے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ وحشیانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔غزہ پر اسرائیل کے تازہ حملوں میں مزید 100 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں تین بچے بھی شامل ہیں جبکہ 8 فلسطینی بھوک کی شدت سے انتقال کر گئے ،غزہ میں اب تک بھوک کی شدت سے 106 بچوں سمیت 235 فلسطینی انتقال کر چکے ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے انروا کا کہنا تھاکہ اسرائیلی حکام اب بھی اہم امداد بشمول خوراک، ادویات، پناہ گاہوں کے سامان اور حفظان صحت کے سامان کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے کہا کہ غزہ کے نظامِ صحت کی منظم تباہی، ہیلتھ ورکرز کی ہلاکتوں اور جبری بھوک کے ذریعے اسرائیل غزہ میں طبی قتلِ عام کر رہا ہے۔ادھردنیا بھر کی 100 سے زائد عالمی امدادی تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ مارچ سے اب تک ان میں سے بیشتر ایک بھی انسانی امداد کا ٹرک غزہ داخل نہیں کر سکیں کیونکہ قابض اسرائیلی حکام دانستہ طور پر ضرورت مند فلسطینی عوام تک امداد پہنچنے سے روک رہے ہیں۔
یہ انکشاف عبرانی اخبار ہآرٹس کی رپورٹ میں کیا گیا۔ان تنظیموں نے واضح کیا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران ہی 60 سے زائد بار امدادی قافلوں کے داخلے سے انکار کیا گیا جس کے باعث لاکھوں ڈالر مالیت کا پینے کا پانی، ادویات، خوراک اور خیموں کا سامان اردن اور مصر کے گوداموں میں رکا ہوا ہے جبکہ غزہ کے شہری خوراک اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت میں مبتلا ہیں۔
ادھر نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم اپنے ہوش کھو بیٹھے ہیں۔کرسٹوفر لکسن نے اپنے بیان میں کہاکہ غزہ پر اسرائیلی حملے کسی صورت قبول نہیں کئے جا سکتے، اہل غزہ کی جبری بے دخلی اور اسرائیلی قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہاکہ اسرائیلی اقدامات قابل مذمت ہیں، نیوزی لینڈ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
یمن کی مسلح افواج نے ایک اہم فوجی کارروائی کرتے ہوئے بن گوریون ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ”فلسطین 2” نامی ایک جدید اور تیز رفتار بیلسٹک میزائل استعمال کیا گیا جو اپنے ہدف پر کامیابی سے جا لگا جس کے نتیجے میں صہیونی آبادکار خوف کے مارے پناہ گاہوں میں جا دبکے اور ایئرپورٹ کی پروازیں مکمل طور پر معطل ہو گئیں۔
یمنی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ سریع نے بتایا کہ یہ کارروائی پوری طرح کامیاب رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یمنی افواج غزہ کی زمینی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں مکمل یقین ہے کہ فلسطین کے مجاہدین دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔
یمنی مسلح افواج نے اپنے پیغام میں فلسطینی عوام کو یقین دلایا کہ ان کی حمایت اور مدد ہر ممکن ذریعے سے جاری رہے گی۔مصر کے وزیر خارجہ بدر عبد العاطی نے اعلان کیا ہے کہ مصر نے غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے 5 ہزار فلسطینی پولیس اہلکاروں کی تربیت کا آغاز کر دیا ہے۔
عبد العاطی نے ایک مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو میں بتایا کہ تربیت یافتہ اہلکاروں کی فہرستیں تیار ہیں اور انہیں مصر کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے، اس میں اردن بھی تعاون کر رہا ہے تاکہ یہ اہلکار غزہ میں تعینات کیے جا سکیں کیونکہ اس وقت وہاں ایک حفاظتی خلا موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور غزہ کی تعمیر نو کا کام فلسطینی وزیراعظم کی نگرانی میں ہوگا جو قاہرہ میں بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے دوران متعدد ورکشاپس ہوں گی جن میں پولیس انتظامات، ترقی اور تعمیر نو شامل ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی تمام امور سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ادھراسرائیلی صحافیوں نے غزہ کے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے تل ابیب میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔غزہ میں صحافیوں کے قتل کے خلاف اسرائیلی صحافی مظاہرین کا کہنا تھا کہ سچ دفنانے کے لیے صحافیوں کو دفن کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے غزہ کے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کی تحریر والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔اسرائیلی صحافیوں نے نیتن یاہو حکومت سے غزہ کے صحافیوں کا قتل عام روکنے کا مطالبہ کیا۔