رپورٹ: علی ہلال
غزہ میں بھوک کی شدت نے جانیں نگلنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھوک کے عفریت نے ننھی جانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیاہے۔ ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھوک کی موت کا اندوہناک سلسلہ بند نہ ہوا تو یہ 22 ماہ میں اسرائیلی ہتھیاروں سے ہونے والی اموات کی تعداد کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
موت بڑی تیزی کے ساتھ غزہ میں پنجے گاڑ چکی ہے اور بھوک کے باعث جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ اب عروج پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 27 مئی سے اب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں امداد کے لیے آنے والے اہلِ غزہ پر فائرنگ سے 1442 انسان زندگی کی بازی ہارگئے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ اس وقت چھ ہزار ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں جو اسرائیل کی اجازت کے منتظر ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 6 ہزار ٹرک جو خوراک، پانی اور امدادی سامان لیے کھڑے ہیں، غزہ کے داخلی راستوں پر رک گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل ان قافلوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی محاصرے کے سائے میں جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی شدید انسانی بحران کا شکار ہے، جس کی بدترین شکل بھوک سے نڈھال بچوں کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ عالمی میڈیا اور بین الاقوامی برادری نے ان بچوں کی دلخراش تصاویر اور ویڈیوز پر بھرپور توجہ دی ہے جنہیں امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں شامل کیا۔ رپورٹ میں ایسی مائیں بھی نظر آئیں جن کے چہروں پر بے بسی، غم اور محرومی کے آثار نمایاں تھے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو کھانا نہیں دے سکتیں۔
رپورٹ کے ساتھ کچھ خاکے (گرافکس) بھی شامل کیے گئے ہیں جو یہ دکھاتے ہیں کہ توانائی اور گلوکوز کی کمی انسانی جسم اور نظامِ انہضام کو کیسے متاثر کرتی ہے۔ اخبار کے مطابق غزہ کے 20 لاکھ سے زائد لوگوں میں سے ایک ملین (دس لاکھ) بچے تقریباً مکمل طور پر خوراک سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ایک تہائی آبادی کو کئی دنوں تک کچھ کھانے کو نہیں ملتا اور بھوک سے اموات کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک ممکنہ قحط کے بارے میں پہلے ہی خبردار کردیا تھا، اب ان کا کہنا ہے کہ قحط اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ عالمی ادارہ¿ صحت (WHO) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریسس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: کچھ غزہ میں ہورہا ہے اُسے انسانی ساختہ اجتماعی بھوک کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا اور یہ بات بالکل واضح ہے۔ برطانوی جریدے گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل غزہ میں خوراک کے بہاو کو مکمل طور پر کنٹرول کررہا ہے، قحط ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ ہے۔
مصنفہ ایماگراہم ہیریسن نے ’گارڈین‘ میں شائع اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل غزہ میں خوراک کی آمدورفت کو مکمل طور پر کنٹرول کرتا ہے اور وہ جان بوجھ کر اتنی امداد داخل نہیں ہونے دیتا جو اہلِ غزہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے، جس کے نتیجے میں اجتماعی قحط ایک براہِ راست نتیجہ ہے اسرائیل کی پالیسی کا۔ مصنفہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کو بالکل علم ہے کہ غزہ کے باسیوں کو زندہ رہنے کے لیے کتنی خوراک درکار ہے اور ماضی میں اُس نے سرکاری دستاویزات میں یہ حساب بھی لگا رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ضروری خوراک کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہی داخل ہونے دیتا ہے۔
الجزیرہ نے واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کا ترجمہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”بھوک انسانی جسم کو کیسے تباہ کرتی ہے؟“ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جب کسی علاقے میں بھوک پھیلتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر جسم پر پڑتا ہے۔ جسم کی توانائی کا بنیادی ذریعہ کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں جو گلوکوز میں تبدیل ہوتے ہیں۔ جب جسم میں موجود توانائی ختم ہوجاتی ہے تو وہ اپنی چربی جلانا شروع کرتا ہے، پھر پٹھے گلنے لگتے ہیں اور آخرکار اندرونی اعضا کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ بچوں میں یہ عمل زیادہ تیزی سے ہوتا ہے کیونکہ ان کی توانائی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ جسم میں ذخیرہ کم ہوتا ہے نتیجتاً عضلات سکڑ جاتے ہیں۔ جسم کا درجہ حرارت کنٹرول ہونا بند ہوجاتا ہے، جلد کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے۔مسوڑھوں سے خون آتا ہے، مدافعتی نظام کمزور ہوکر اسہال جیسے عام امراض سے بھی نہیں لڑ پاتا۔یہ ایک ایسا شیطانی چکر ہے جو جسم کو مسلسل کمزور کرتا جاتا ہے۔
ماہر قحط ’الیکس ڈی وال‘ کا کہنا ہے بمباری ختم ہونے کے ساتھ ختم ہوسکتی ہے، لیکن بھوک نہیں…. یہ ایک سست مذبَحہ ہے جو جنگ کے بعد بھی جاری رہتاہے جسم کا نظامِ انہضام سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ معدے کے رس کم ہونے لگتے ہیں۔ معدہ سکڑ جاتا ہے۔ بھوک کا احساس ختم ہوجاتاہے اور جب کھانا میسر ہو بھی جائے تو جسم کو آہستہ آہستہ اور طبی نگرانی میں کھانا دینا ضروری ہوتاہے۔ دل سکڑ جاتا ہے۔ خون کا بہاو کم ہو جاتا ہے،دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے۔بلڈپریشر گر جاتا ہے اور آخر کار دل کام کرنا بند کر دیتا ہے۔ سانس لینے کی شرح کم ہو جاتی ہے۔پھیپھڑوں کی آکسیجن جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔نظام تنفس بھی بالآخر فیل ہو جاتا ہے۔بھوک دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے۔خاص طور پر بچوں میں توانائی کی کمی مستقل دماغی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ان کی سیکھنے اور ذہنی نشو و نما کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے ’یونیسف‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 80 فیصد بھوک سے مرنے والے بچے ہوتے ہیں۔ جولائی کے پہلے دو ہفتوں میں 5 ہزار بچوں کا علاج کیا گیا جو غذائی قلت کا شکار تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے فضائی امداد کی اجازت دینے کا عندیہ دیا، لیکن واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ ایک طیارے کی لائی ہوئی امداد ایک ٹرک سے بھی کم ہوتی ہے اور اکثر یہ امداد اُن لوگوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہے جو اس کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔

