طنز و مزاح انسانی فطرت کی ایک حسین ترجمانی ہے جو نہ صرف ذہنی بوجھ کو کم کرتا ہے بلکہ قاری یا سامع کو ایک گہری فکری سطح پر جھنجھوڑ بھی دیتا ہے۔ یہ ادب کا ایک وہ رنگ ہے جس میں فکر و احساس کی آمیزش، زبان و بیان کی لطافت اور اخلاق و تہذیب کی جھلک موجود ہوتی ہے۔
طنز و مزاح کی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ ہنساتے ہوئے اصلاح کی راہ ہموار کرتا ہے، دل کو بہلاتے ہوئے ذہن کو جگاتا ہے اور تلخ حقائق کو شیرینی کے ساتھ پیش کرتا ہے تاکہ مخاطب اس کی تلخی کو محسوس کرنے کی بجائے اس پر غور کرنے پر مجبور ہو جائے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حسن کی ایک حد ہوتی ہے اور ہر فن کی ایک اخلاقی سرحدبھی ہوتی ہے۔ طنز و مزاح جب اپنے دائرہ شائستگی سے نکل کر تضحیک، تمسخر اور نفرت انگیزی میں ڈھل جائے تو یہ فن نہیں رہتا بلکہ فتنہ بن جاتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے طنز اِصلاح کی بجائے فساد کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مزاح، محبت کی جگہ نفرت کو جنم دینے لگتا ہے۔ کسی کی ذات، عقیدہ، نسل، رنگ، شکل یا حالاتِ زندگی پر ہنسی اُڑانا بظاہر ایک چھوٹا سا مذاق معلوم ہوتا ہے مگر اس کا زخم دیرپا اور گہرا ہوتا ہے۔
ادبیاتِ اُردو میں طنز و مزاح کا ایک طویل اور درخشندہ سلسلہ موجود ہے۔ پطرس بخاری کی شوخی، رشید احمد صدیقی کی چبھتی ہوئی نرم باتیں، مشتاق احمد یوسفی کی بلند تخیل میں ڈوبی شگفتہ تحریریں اور انورمقصود کی زبان زدِ خاص و عام چٹکیاں یہ سب اِس فن کے وہ ستون ہیں جنہوں نے نہ صرف قاری کو محظوظ کیا بلکہ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سماج کو ایک نیا زاویہ نظر بھی عطا کیا۔ ان کے ہاں طنز کسی کی ذات پر حملہ نہیں کرتا بلکہ ایک عمومی رویے، ایک سماجی مرض یا ایک فکری کجی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی فرق ہوتا ہے اصلاح اور تضحیک میں، فن اور فتنے میں، شگفتگی اور بدذوقی میں۔
موجودہ دور میں خاص طور پر سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر طنز و مزاح کی جو شکل ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ اکثر اِس فن کی اصل روح سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ کسی کی تکلیف، کسی کی ناکامی، کسی کی کمزوری یہاں تک کہ کسی کے مذہبی یا ذاتی جذبات کو بھی تفریح کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آزادیِ اظہار کا نعرہ لگا کر لوگوں کو مجروح کرنا، کردار کشی کو ”میمز“ کی صورت میں خوبصورت بنا کر پیش کرنا اور زبان کو زہر میں بجھا دینا، یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب ہم طنز و مزاح کے خالص، مہذب اور اعلیٰ معیار کو بھول چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب کسی کا مذاق اُڑانا بے ادبی شمار ہوتا تھا اور اب اس عمل کو ’کری ایٹو‘ سمجھا جانے لگا ہے۔ اب جو جتنا زیادہ تلخ، ذاتی اور بے رحم ہے اُسے اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ادب، اخلاق اور انسانیت پیچھے رہ جاتے ہیں اور ”وائرل ہونے“ کی خواہش غالب آ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے، دلوں میں نفرت جنم لیتی ہے اور فن و فنکار کی پہچان ایک مسخرے میں بدل جاتی ہے۔
ایک سچا فنکار وہی ہوتا ہے جو اپنے قلم کی طاقت سے معاشرے کو ہنساتے ہوئے اُس کی غلطیوں کی طرف نشاندہی کرے مگر ایسا کرتے وقت وہ تہذیب، اخلاق اور انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ اُسے یہ احساس ہو کہ اس کی بات پڑھنے والا ایک حساس دل بھی ہو سکتا ہے، ایک زخم خوردہ روح بھی ہو سکتی ہے، ایک فکری مغالطے میں الجھا ہوا ذہن بھی ہو سکتا ہے۔ طنز و مزاح میں اگر یہ احساس شامل نہ ہو تو وہ فن کی بجائے تماشہ بن جاتا ہے اور فنکار کی عظمت دھندلا جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ طنز و مزاح کرنے والا شخص نہ صرف الفاظ کا فنکار ہو بلکہ اخلاق کا علمبردار بھی ہو۔ اُسے معلوم ہو کہ ہنسی کا نشہ عارضی ہوتا ہے مگر دل کا زخم دیرپا۔ اگر اس کا ایک جملہ قہقہہ بن کر اُبھرتا ہے تو اسے یہ بھی جاننا چاہیے کہ وہی جملہ کسی کی خاموشی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ہنسا سکتا ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کسی کے آنسو کا سبب نہ بن جائے۔زندگی خود ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اگر اس میں مسکراہٹ کی گنجائش نکلتی ہے تو یہ یقینا نعمت ہے۔ طنز و مزاح اس نعمت کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں بشرطیکہ وہ مزاح کسی کا مذاق نہ بنے، طنز کسی کی تذلیل نہ کرے اور فن کسی کی بربادی کا ذریعہ نہ ہو۔ معاشرہ جب ایسے فن کو فروغ دے گا جس میں اخلاق ہو، تہذیب ہو، احساس ہو تو نہ صرف ہم ایک خوبصورت سماجی فضا قائم کر سکیں گے بلکہ ادب کے دامن کو بھی شرمندگی سے بچا سکیں گے۔
اِس لیے طنز و مزاح کو کبھی معمولی نہ سمجھا جائے۔ یہ دلوں کو جیتنے، اِصلاح کرنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کا ایک موثر ہتھیار ہے، بشرطیکہ اِسے مہارت، احتیاط اور محبت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ طنز ہو مگر بے زاری پیدا نہ کرے، مزاح ہو مگر وقار پر حرف نہ آئے، ہنسی ہو مگر آنسو کا سبب نہ بنے، تب ہی یہ فن ایک کارآمد، مہذب اور محترم عمل بن سکتا ہے۔ (پروفیسر ظفر محمود)
