اپنی روز مرہ زندگی میں ہم یہ فقرہ روزانہ درجنوں مرتبہ دوسروں سے سنتے ہیں اور خود بھی بولتے ہیں کہ ٹائم ہی نہیں ملتا۔
اگر ہم کسی سے فون پر بات کر رہے ہوں اور بات کرنے والا پوچھے کہ کئی دن سے ملاقات ہی نہیں ہوئی تو ہمارا جواب فورا ًسے ہوتا ہے کیا کروں یار؟ ٹائم ہی نہیں ملتا۔ اِسی طرح اگر ہمارے گھر کا کوئی کام کافی عرصے سے زیر التوا ہو تو ہم خود کو دل ہی دل میں تسلی دیتے رہتے ہیں کہ جب بھی ٹائم ملے گا کرلیں گے اور اگر دفتر کا کوئی کام ملتوی ہوجائے تو باس کے لیے بھی یہی جواب ہوتا ہے کہ بیچارہ دوسرے کاموں سے فارغ ہی نہیں ہوسکا، اِس لیے یہ کام نمٹانے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔ یونہی کسی دُورپار کے رشتہ دار سے اچانک ملاقات ہوجائے اور وہ دعوت دے بیٹھے کہ کبھی وقت نکال کر آو¿ تو ہم اُسے بھی یہی گھڑا گھڑایا جواب دیتے ہیں کہ کیا کروں ؟ ٹائم ہی نہیں ملتا!!!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سارے کا سارا ٹائم جاتا کدھر ہے جو کہ پھر ملتا ہی نہیں؟ اگر ہم اس بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو کافی دلچسپ صورتحال سامنے آئے گی۔ ذرا ایک منٹ کے لیے اپنی مصروفیت کا حال ذہن میں لائیں شائد کچھ اِس قسم کا خاکہ بنے؛ صبح آٹھ بجے اٹھنا، نو بجے تک تیار ہونا، دس بجے تک آفس پہنچنا، گیارہ بجے تک چائے پینا، بارہ سے ایک بجے تک کوئی بے معنی قسم کی میلنگ اٹینڈ کرنا ۔ ایک بجے لنچ کرنا، دو بجے دوبارہ چائے پینا، تین بجے آفس کولیگ کے ساتھ مل کر باس کی بدخوئیاں کرنا، چار بجے باس کے کمرے میں جاکر خوشامدیں کرنا اور پھر پانچ بجے تک چھ بجنے کا انتظار کرنا۔
سات بجے تک گھر واپس آنا ، آٹھ بجے تک آرام اور فریش وغیرہ کرنا اور پھر رات آٹھ سے بارہ بجے تک ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں پکڑ کر ساٹھ چینل بار بار گھما کر دیکھتے رہنا اور بارہ بجے جمائیاں لے کر سوجانا۔ واضح رہے کہ اگر آپ کو فیملی کے ساتھ آوٹنگ پر جانا ہو تو اس کام کے لیے ویک اینڈ مختص ہے اور رہ گئی اتوار کی چھٹی تو بے تحاشا ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو اِس اُمید پر نہیں کیے جاتے کہ اتوار کو کر لیے جائیں گے اور اس طرح وہ کام اتوار کی چھٹی کا ٹائم بھی کھا جاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں وہ کام اگلی اتوار تک بھی ویسے کے ویسے ہی منہ پھاڑے کھڑے رہتے ہیں!!! اب آپ ہی بتائیں کہ اِس مصروفیت میں کوئی شخص کہاں سے وقت نکالے؟
تو آخر حل کیا ہے؟: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس نہ ختم ہونے والی مصروفیت اور ”ٹائم نہیں ملتا“ کا رونا روتے رہنے کے درمیان ہم اپنا قیمتی وقت کیسے بچاسکتے ہیں؟ درحقیقت ٹائم کی کمی کا مسئلہ اکثر وقت کے غلط انتظام، ترجیحات کی عدم موجودگی اور بے معنی سرگرمیوں میں الجھے رہنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم وقت بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا، غیرضروری کاموں کو ترک کرنا ہوگا، اپنی ترجیحات کو واضح کرنا ہوگا۔ جب ہم چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھائیں گے، جیسے ٹی وی، سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی فائدہ مند کتاب پڑھنا یا بدگوئیوں کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینا تو خودبخود ہمارے لیے بہت سا وقت نکل آئے گا۔ یاد رکھیں وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم وقت کو اہمیت دیں گے تو وقت ہمیں کامیابی اور سکون سے نوازے گا۔ (تحریر: دانیال حسن چغتائی )
