قرآن وحدیث اور سیرت طیبہ کے مطالعہ سے رہنمائی تو ملتی ہی ہے، یہاں مگر کبھی کبھار الفاظ، صرف الفاظ نہیں رہتے۔ وہ کسی اور ہی جہان سے اترے ہوئے نور کے ذرات بن جاتے ہیں۔ قرآن کی کوئی آیت، حدیث کا کوئی موتی، یا سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی لمحہ، بعض اوقات دل پر کچھ یوں دستک دیتا ہے کہ صدیوں کی تھکن اتر جاتی ہے۔ آنکھ سے آنسو بہہ نکلتے ہیں، مگر دل میں ایسی روشنی بھر جاتی ہے کہ ہر غم کافور ہو جاتا ہے۔
وہ لمحے، جن میں کوئی آیت سینے پر مرہم رکھتی ہے، کوئی واقعہ لبوں پر تبسم بکھیر دیتا ہے، یا کوئی حدیث دل کو بانہوں میں لے لیتی ہے، انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رب کریم خود اس کے پاس آ بیٹھا ہو۔ ایسے ہی لمحات انسان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہاں، یہ دین صرف ضابطہ حیات نہیں، یہ تو محبت کی بارش ہے، جو دل کو سیراب کرتی ہے، روح کو جگاتی ہے، اور انسان کو انسان بنا دیتی ہے۔ وہ لمحے جب محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو مخاطب کرتے تھے، ان کی زبان سے نکلا ہر لفظ ایک عظمت، ایک عزت، ایک شفقت کا پیام ہوتا تھا۔ احادیث مبارکہ میں وارد چند ایسے ہی دل کو چھو لینے والے ارشادات کے ساتھ کچھ وقت کے لیے آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ذرا ان بابرکت لمحوں کو یاد کریں اور ان خوش نصیبوں کے جذبات کو محسوس کریں جنہیں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست مخاطب فرمایا: جب ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خدیجہ! تمہارے رب نے تمہیں سلام بھیجا ہے… کیا دل نہ پگھل جائے کہ خالقِ کائنات کسی بندے کو براہِ راست سلام کہے؟
جب اْبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کو بتایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں! اْبیّ نے پوچھا: کیا اللہ نے میرا نام لیا؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، اْس نے تمہارا نام لیا ہے!… ذرا سوچیے! انسان کا نام خالق کائنات خود لے اور یہ قابل صد اعزاز خبر بھی کوئی اور نہیں، کائنات کے سردار اسے سنائیں! جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے احد کے میدان میں فرمایا: چلاؤ تیر! میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں! جب اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا: تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں!کیا اس سے بھی بڑی کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟!
جب اپنے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں نے جنت میں تمہارے جوتوں کی چاپ سنی! کیا خوش نصیبی کی انتہا نہیں کہ دنیا میں اذان دینے والا جنت میں چلتے سنا جائے؟ اور یہ خوشخبری بھی اسے دنیا کا سچا ترین انسان دے؟
جب آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار میں تھے اور ان سے فرمایا: اے ابو بکر! ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟ اللہ تعالی پر توکل، اعتماد اور بھروسہ کا سبق اس سے زیادہ خوبصورت الفاظ میں بھی دیا جا سکتا ہے؟! جب لوگ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی باریک ٹانگوں پر ہنسے تو فرمایا: تم ہنستے ہو ان کی پنڈلیوں پر؟ ان کا وزن ( قدر) اللہ کے ہاں احد پہاڑ سے زیادہ ہے!… اور جب حیا کے پیکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں تھے اور بیعتِ رضوان ہوئی، تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے!
غور تو کریں! اللہ کے محبوب اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ کہہ رہے ہیں! جب سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے!نبی کے گھرانے سے ہونا، سعادت کی انتہا نہیں؟!
جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:شیطان کبھی تمہارے راستے پر نہیں چلتا، وہ تمہارے راستے سے ہٹ جاتا ہے! ایمان کی پختگی کی اس سے بڑھ کر پختہ شہادت اور کونسی ہوگی؟! جب معاذ رضی اللہ عنہ کو قسم دے کر فرمایا: اے معاذ! اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں!… اظہار محبت، اور وہ بھی ایسی ہستی کی طرف سے، جس کو خود محبوب بنانا ایمان کا حصہ ہے! خوش بختی کا اس سے بڑا مقام بھی ہو سکتا ہے؟!جب صہیب رضی اللہ عنہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: ابو یحییٰ! تمہارا سودا کامیاب رہا! اور جب آپ نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ زھرا رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا: میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے… ذرا تصور تو کیجیے، یہ وہ باپ اپنی بیٹی سے کہہ رہا ہے جو صرف نبی نہیں بلکہ نبیوں کا سردار ہے۔
جب فرمایا: ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اور میری امت کا امین ابو عبیدہ ہے!… غور کیجیے، امانت کا یہ سرٹیفکیٹ اس عدالت سے مل رہا ہے جو خود عالمی سطح پر امانت و صداقت کی نمبر ایک پوزیشن پر ہے۔ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر فرمایا: تم نے ان پر وہی فیصلہ کیا جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے فرمایا ہے! … فیصلہ کی اس توثیق پر سعد فخر کی کتنی بلندی پر خود کو محسوس کر رہا ہوگا۔جب یاسر، سمیہ، عمار رضی اللہ عنہم پر ظلم ہو رہا تھا تو فرمایا: صبر کرو آلِ یاسر! تمہارا وعدہ جنت ہے!… جب دربار نبی کے شاعر حسان رضی اللہ عنہ اپنی شاعری سے دین کا دفاع کر رہے تھے تو فرمایا: جواب دو، ان کی ہجو کرو، جبرائیل تمہارے ساتھ ہے!… جب عکاشہ رضی اللہ عنہ نے جنت میں بلا حساب داخلے کی دعا مانگی، تو آپ نے فرمایا: تم ان میں سے ہو!… جب قاریوں کا قاری ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ قرآن پڑھتے اور آپ سنتے، تو فرماتے: تمہیں آلِ داؤد جیسے خوش آہنگ ساز دیا گیا ہے!… اور جب انصار غنیمت کی تقسیم پر دل گرفتہ ہوئے تو آپ نے فرمایا: کیا تم راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں، اور تم رسول اللہ کو لے جاؤ؟
کیا اس سے زیادہ بھی کوئی کامیاب تجارت ہو سکتی ہے؟! اور جب ہمارے باری آئی ( جو ان کا زمانہ پا سکے، اور نہ ہی ان کا دیدار کر سکے) تو فرمایا: میرے بھائی وہ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں!…یہ صرف واقعات نہیں، یہ عشق کے رنگ، عقیدت کے لمحے، اور محبت کے وہ زمزمے ہیں جو آج بھی دلوں کو ہلا دیتے ہیں۔ خوش نصیب تھے وہ جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست کلام کیا اور خوش نصیب ہیں ہم کہ آپ کی محبت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے اور کیا نجات کیلئے اس محبت کے علاوہ بھی ہماری جھولی میں کچھ بچا ہے؟ فداک روحی یا رسول اللہ!