وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک بار پھر بھارت کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نہ معطل کرسکتا ہے اور نہ ختم۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے دورے کے دوران وزیراعظم کو این ڈی ایم اے نے مون سون سیزن، ممکنہ سیلابی صورتحال،بھارت کی آبی جارحیت اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے اس موقع پر دو ٹوک انداز میں کہا کہ بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن پاکستان اس سازش کو ناکام بنا دے گا۔ وزیر اعظم کا یہ بیان عالمی ثالثی عدالت کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں بھی بروقت اور معقول تھا، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کرسکتا۔
پانی ایک قدرتی عطیہ ہے جس پر تنہا کسی فرد، قوم یا ملک کی اجارہ داری قائم نہیں ہوسکتی۔ دریا نہ کسی انسان کی محنت سے نکلتے ہیں اور نہ کسی قوم کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ یہ کسی صنعتی پیداوار کی طرح نہیں کہ کوئی ملک اپنی محنت سے کارخانے میں تیار کرے اور پھر اس پر تنہا حق جتائے۔ پانی اور دریا خالصتاً قدرتی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں، جن پر ان کے پاٹ کے اردگرد پورے طاس میں بسنے والے تمام انسانوں اور قوموں کا برابر حق ہوتا ہے۔ یہی بین الاقوامی قانون اور انسانیت کی مسلمہ و غیر متنازع قدر اور اصول ہے۔ اس مسلمہ عالمی قانون اور مشترکہ انسانی قدر کے برعکس بھارت اپنی سرزمین سے بہہ کر پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف بہنے سے ایسے روکنے کی کوشش کرتا ہے جیسے ان پانیوں پر اس کی دائمی اور غیر مبدل ملکیت ہو اور وہ مسلسل پاکستان کے خلاف اس کے جائز حصے کے پانی کو بلیک میلنگ اور دشمنی نکالنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس کے حصے کے پانی کو ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش صریحاً عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور انسانیت دشمنی کے مترادف ہے، مگر بھارت دنیا کا وہ تنگ نظر ملک ہے جو عداوت میں کسی اصول اور حدود کا قائل نہیں ہے، چنانچہ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کا نہایت گمراہ کن بیانیہ ہے کہ ”خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔” یہ ایک انتہائی سطحی، لغو اور بے دلیل و بے بنیاد بیانیہ ہے۔ اس کے پیچھے وہی پاکستان مخالف انتہاپسندانہ نظریہ کارفرما ہے جو بھارت کی سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی اور میڈیا میں سرایت کر چکا ہے۔ اس سے مودی سرکار کے پاکستان کے خلاف عزائم بھی آشکار ہوجاتے ہیں۔
بھارت کا یہ سمجھنا کہ وہ پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر پانی جیسی قدرتی نعمت کو روک سکتا ہے، درحقیقت اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔ بھارت ایسی چیز کو روکنے کا حق ہی نہیں رکھتا، جو اس کی ذاتی ملکیت نہیں۔ کیا یہ پانی بھارت اپنے کارخانوں میں ذاتی کاوش سے پیدا کرتا ہے، جسے بہانے بنا کر پاکستان کی طرف نہ بہنے دے۔ اگر پاکستان کا پانی روکا گیا تو مسلمہ قوانین کی رو سے یہ عمل صرف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ایک اعلانِ جنگ متصور ہوگا۔ پاکستان یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے حق اور حصے کے دفاع کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائے، چاہے وہ مسلح حملہ ہی کیوں نہ ہو۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں جہاں بھارت کو سخت پیغام دیا، وہیں پاکستان کو اپنی زمین کے اندر موجود آبی وسائل کو محفوظ بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث ملک میں سالانہ لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ ہم نے ڈیم، ذخائر اور تقسیم کا مناسب نظام قائم نہیں کیا۔ پاکستان کو فوری طور پر اس طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف موجودہ ضروریات پوری کی جاسکیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی پانی کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ وزیر اعظم نے این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد اس ادارے کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا لیکن محض اداروں کی ساخت کافی نہیں، اصل ضرورت ان کی استعداد کار بڑھانے، جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے اور صوبوں کے ساتھ مضبوط ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیاتی تغیرات ایک عالمی چیلنج ہیں اور پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ان تغیرات کے اثرات کا شکار ہیں۔ ہمارا کاربن اخراج نہ ہونے کے برابر ہے، مگر ہم ماحولیاتی آفات کا سب سے زیادہ نشانہ ہیں۔ ان حالات میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا مضبوط نظام انتہائی ناگزیر ہے۔سوات میں حالیہ افسوسناک واقعہ ہو یا 2022 کا تباہ کن سیلاب، ان سب نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیں صرف ردعمل پر مبنی پالیسیوں کی بجائے پیشگی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات بھی لازم ہیں تاکہ قدرتی آفات کے خطرات کم کیے جا سکیں۔وزیراعظم نے اپنی تقریر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے فروغ پر بھی زور دیا، جو کہ ایک دانشمندانہ قدم ہے۔ نجی شعبے کی شمولیت نہ صرف مالی وسائل کو بڑھائے گی بلکہ ٹیکنالوجی اور تجربے کے تبادلے کو بھی ممکن بنائے گی۔ ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ مستقبل میں آنے والی آفات کا بہتر مقابلہ کیا جا سکے۔
بھارت سے اپنا حق لینے کی کوشش ایک طرف، لیکن پاکستان کو خود بھی اپنی اندرونی پالیسیوں میں سنجیدہ اصلاحات لانی ہوں گی۔ پانی صرف آج کی ضرورت نہیں، یہ آنے والی نسلوں، زمین پر موجود ہر مخلوق، زراعت، ماحول، معیشت اور قومی بقا سے جڑا ہوا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ریاستی اداروں، پالیسی سازوں اور عوام کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ہمیں مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بلاتاخیر مزید نئے ڈیم بنانے ہوں گے۔ تبھی ہم ایک محفوظ، خوشحال اور ماحولیاتی طور پر مستحکم پاکستان کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کے ہر پہلو کو عالمی عدالتوں میں اجاگر کرے، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کے اداروں، ماحولیاتی فورمز اور بین الاقوامی میڈیا میں بھارت کے جارحانہ اور غیرقانونی اقدامات کا پردہ چاک کرے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان اپنے آبی حقوق کے دفاع میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔ بھارت کی طرف سے اگر پاکستان کا پانی روکا گیا تو یہ محض ایک سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ قومی بقا کا مسئلہ بن جائے گا اور پاکستان اپنی بقا کی جنگ میں کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرے گا۔