اب عرب ارکانِ پارلیمنٹ بھی اسرائیل کے نشانے پر!

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی کمیٹی نے اکثریتی ووٹ سے رکنِ کنیسٹ ایمن عودہ کے اخراج کے عمل کو مکمل کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے کے مطابق صہیونی حکومت کی قانونی مشیر نے اس فیصلے پر سنجیدہ قانونی اعتراضات کیے تھے لیکن اس کے باوجود بھی رکن پارلیمان کے خلاف کارروائی کو روکا نہیں گیا۔
ایمن عودہ اسرائیل میں عرب پارلیمانی گروپ ’ الجبھة و العربیة للتغییر ‘کے سربراہ ہے جو چار عرب پارلیمانی گروپوں کا الائنس ہے۔ کمیٹی کے 25 میں سے 14 اراکین نے اس تجویز کے حق میں ووٹ دیاہے۔ یہ اقدام حکومتی اتحاد کی جماعتوں کی حمایت سے کیا گیا جس کی قیادت وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ کررہی ہے اور ساتھ ہی اویگدور لیبرمین کی سربراہی میں جماعت ’یسرائیل بیتینا‘ کے اراکین نے بھی حمایت کی۔ القدس العربی کی رپورٹ کے مطابق اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ یہ تجویز کنیسٹ کے عمومی اجلاس میں پیش کی جائے جہاں اس کی منظوری کے لیے 90 ارکان کی حمایت درکار ہوگی، چاہے اجلاس میں کتنے بھی ارکان موجود ہوں۔ اگر رکنیت ختم کرنے کے حق میں ووٹ پڑ جاتے ہیں تو ایمن عودہ اس فیصلے کے خلاف عدالتِ عالیہ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی نسل پرستانہ سیاست کا شکار ہونے والے ایمن عودہ نے اس فیصلے پر اپنے فیس بک اکاونٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ کسی بھی قسم کا پیچھے ہٹنا مزدور، طالبعلم اور ہمارے عوام کے اظہارِ رائے کے حق سے دستبرداری ہوگا اور یہ ان کی خوف کی پالیسی کی کامیابی ہوگی جو وہ جنگ کے آغاز سے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ان کے مطابق ہر استقامت ان کی پالیسی کو توڑنے اور اپنے عوام کے حقِ اظہار کا دفاع ہے۔ ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے جو چاہیں کر لیں۔ایمن عودہ کو حال ہی میں کنیسٹ کے عمومی اجلاسوں سے دو ہفتے کے لیے معطل کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اسرائیل پر غزہ میں قتلِ عام اور بھوک مسلط کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس دوران ان کی تنخواہ بند رہے گی۔ اسی طرح اُن کی جماعت کی رکن ’عایدہ توما سلیمان‘ کو بھی تین دن کے لیے معطل کیا گیا کیونکہ انہوں نے بھی اسرائیلی فوج کے غزہ میں کام پر تنقید کی تھی۔
اسرائیلی عربوں کے اُمور کے لئے کام کرنے والے ادارے ’مرکز مساواة‘ نے اس فیصلے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عرب اقلیت کو نمائندگی کے حق سے محروم کرنے کی راہ ہموار کررہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی سیاست پر دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ حاوی ہوچکی ہے اور یہ صرف آغاز ہے۔ اجلاس کے دوران ایمن عودہ اور دیگر عرب ارکان کے خلاف غیرمعمولی حد تک نفرت انگیز بیانات دیے گئے۔ مرکز نے عرب برادری سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر اس تجویز کے خلاف صف بندی کرے۔ ایک متفقہ سیاسی لائحہ عمل اپنائے تاکہ اس تجویز کے پارلیمان میں ووٹنگ سے قبل اسے روکا جاسکے اور آئندہ کسی بھی ایسی تجویز کے خلاف موثر مزاحمت کی جاسکے، خاص طور پر جب انتخابات قریب ہیں اور انہیں جلد کروانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
خیال رہے کہ ایمن عودہ نے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے دوران ایک بیان میں فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کو برابر قرار دیا تھا۔ انہوں نے ایکس پر تبادلے کے پہلے مرحلے کے بعد لکھا کہ قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی پر خوشی ہے۔ اب دونوں اقوام کو قبضے سے آزادی دلانی چاہیے کیونکہ ہم سب آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ان کی اس پوسٹ کے بعد لیکوڈ پارٹی کے رکن اوفیہائی بوعورون نے ان کی رکنیت ختم کرنے کی مہم کا آغاز کیا اور دعویٰ کیا کہ عودہ نے حماس کے جنگجووں اور یرغمالیوں کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ ان کے بیان کے بعد 68 ارکان نے ایک یادداشت پر دستخط کیے جو بعد میں 70 ہوگئے۔ بعدازاں ایک عرب یہودی مشترکہ مظاہرے میں ایمن عودہ نے کہا تھا کہ غزہ جنگ، قتل اور تباہی کی پالیسی پر غالب آئے گا اور فلسطینی قوم قبضے پر فتح پائے گی۔ حیفا میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ’عدالة‘ نے کہا کہ جو کچھ ایمن عودہ کے ساتھ ہوا وہ غلط، جانبدارانہ اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کی اس میٹنگ میں عرب رہنماوں کے خلاف سخت اور نفرت انگیز باتیں کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ کے کچھ ارکان چاہتے ہیں کہ عرب رہنما ایمن عودہ کو پارلیمنٹ سے نکال دیا جائے، لیکن یہ فیصلہ صرف اُسی وقت نافذ ہو سکتا ہے جب کنیسٹ کے 90 ارکان اس کے حق میں ووٹ دیں اور بعد میں عدالت اسے منسوخ نہ کرے۔کمیٹی کے سربراہ جو لیکوڈ پارٹی سے ہیں نے کہا کہ ایمن عودہ کو جیل میں ہونا چاہیے اور اس کی شہریت بھی ختم ہونی چاہیے۔عرب میڈیا کے مطابق کنیسٹ اور سرکاری وکیلوں نے کہا کہ عودہ کی ٹویٹ قانون کے خلاف نہیں، پھر بھی کمیٹی نے اسے نکالنے کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ فیصلہ ان کی دوسری میٹنگ میں ہوا جہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ ایمن عودہ اسرائیل اور اس کی فوج کے وفادار نہیں۔عدالة تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر حسن جبارین نے کہا کہ عودہ کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ ہے اور نہ ہی اس نے کوئی غیرقانونی بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب عرب جماعتوں کو نشانہ بنانے کی سازش ہے۔
اسرائیل میں عرب اڑتالیس کے لیے کام کرنے والے اداروں نے خبردار کیا کہ آنے والے انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتیں عرب پارٹیوں کے خلاف سخت مہم چلائیں گی۔ ان کے مطابق ایمن عودہ کو نشانہ بنانا دراصل تمام عرب رہنماوں اور اقلیتوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل میں رہنے والے عربوں کو عرب اڑتالیس یا عرب الداخل کہا جاتا ہے۔ یہ اُن ایک لاکھ 60 ہزار عربوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے 1948ء میں النکبہ کے وقت یہودی ملیشیا گروپوں کے جبر و تشدد کا سامنا کرتے ہوئے بے دخل ہونے سے انکار کیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد 21 لاکھ سے متجاوز ہے جو اسرائیلی آبادی کے 21 فیصد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ کے بعد اسرائیلی فورسز نے عربوں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ مسلح یہودی آبادکاروں کے جتھے مسلسل عرب آبادی اور املاک پر حملے کررہے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر عرب اراکین پارلیمنٹ کے خلاف بھی کاروائیاں جاری ہیں۔