تحریر: سمیع اللہ غزنوی، قلات بلوچستان
مولانا روم کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا وہ ہاتھ میں چراغ لیے کچھ تلاش کر رہے تھے۔ میں نے کہا حضرت آپ کیا تلاش کر رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں جانوروں اور چوپایوں سے اکتا گیا ہوں۔ مجھے انسانوں کی تلاش ہے۔ میں انسانوں کی آرزو اور تلاش میں نکلا ہوں۔ میرے گرد انسانوں کی جو بھیڑ ہے۔ اس سے میں اکتا گیا ہوں۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ میں نے کہا حضرت! آپ عنقا کی تلاش میں نکلے ہیں۔ آپ اطمینان رکھیے، یہ ہاتھ آنے والی چیز نہیں۔ بزرگ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ بیٹے! یہی تو میری بیماری ہے۔ میں نایاب کی آرزو رکھتا ہوں۔
مولانا روم انا طولیہ میں رہتے تھے۔ انا طولیہ اس زمانے کے متمدن دنیا کا ایک متمدن خطہ تھا۔ مولانا روم خراسان (موجودہ افغانستان) کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ جو اس زمانے کا سب سے معتبر مقام تھا۔ جس کو مشرق کا یونان کہا جاتا تھا لیکن مولانا روم کو اس خطے سے شکوہ ہےجسے وہ شعر میں واضح کررہےہیں کہ میں اس خطے کا وہ بد قسمت آدمی ہوں جو انسانوں کی صورت دیکھنے کو ترستا ہے۔ اونچے اونچے محل، گل زار شہر، لہلہاتے باغات،آباد محلے، کھانوں کا افراط، لباس کی رنگا رنگی سب کچھ اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن مجھے حقیقی انسان نظر نہیں آتا۔ یہ انسان نما انسان ہیں لیکن حقیقی انسان نہیں۔
آج انسان ہر قسم کے علوم میں ترقی کر چکا ہے۔ مشینوں کی ترقی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ سائنس، علم ریاضی، صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کی بہار ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ علوم اپنے نقطہِ عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ انسان کو جو کچھ دے سکتے تھے، دے چکے۔ جو آسائش فراہم کر سکتے تھے، وہ کر چکے۔ جو ترقی عطا کر سکتے تھے، سو وہ عطا کر ہوچکے۔ انہوں نے اپنا خزانہ اگل دیا لیکن جہاں اربوں انسانوں کی بھیڑ میں تل بھرنے کی جگہ نہ ہو۔ شہروں کی آبادی اتنی کہ راستہ چلنا مشکل ہو۔ اس انسانی جنگل میں اگر پوچھا جائے کہ حقیقی انسان کتنے ہیں تو آپ کی یہ حسرت محض حسرت ہی رہے گی۔ آج انسانوں کی اس بھیڑ میں حقیقی انسان واقعی نایاب ہے۔
وہ انسان جس کے پہلو میں دھڑکنے والا دل، جس کی آنکھوں میں انسانیت کے غم میں بہنے والے آنسو، جو انسانیت کے درد کے سوز میں جلنے والے دل والا ہو، جو نفس پر قابو رکھے۔ جسے زندگی پر قابو حاصل ہو۔ جو زندگی کا حاکم ہو۔ جو اپنے پیدا کرنے والے کو جانتا ہو۔ جس کا دل اس کی محبت سے معمور ہو۔ انسانیت کے احترام سے مخمور ہو۔ جس کی زندگی سادہ اور فطرت سے قریب ہو۔ جس کو قوموں کے انتشار اور باہمی تصادم سے نفرت ہو۔ جو کسی انسان کو مصیبت میں نہ دیکھ سکتا ہو۔ جوہر انسان کی ترقی کا خواہش مند ہو۔ جو بے غرض ہو کر انسانوں کی خدمت کرتا ہو۔ جس کے ہاتھ دینے کے لیے بے چین ہو۔ جس کی راتوں کی نیند بد حال اور مظلوموں کے لیے اڑ جاتی ہو۔ اس کی زندگی کا مقصد صرف اتنا ہی نہ ہو کہ کھاؤ، پیو اور عیش کی زندگی بسر کرو۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ انسان کو کھلا کر فاقہ کرنے میں وہ لذت ہے وہ پیٹ بھرنے میں نہیں۔ جس کا یقین ہو کہ انسانیت سے بڑھ کر نہ تو کوئی عزت ہے۔ نہ ہی کوئی شرافت ہے۔ نہ ہی کوئی احترام کی چیز ہے۔ جو انسانیت کی تعمیر کا خواب دیکھتا ہو۔ جو اپنی زندگی کے آغاز و انجام سے آشنا ہو۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ میرا پیدا کرنے والا کون ہے۔
ہم حشرات کی طرح کھا کر مٹی نہیں ہو جائیں گے۔ خدا نے ہمیں جو صلاحیتیں دی ہیں۔ ان کا حساب دینا ہے۔ جن صلاحیتوں سے ہم نے آسمان مسخر کر دیے۔ جمادات میں جان ڈال دی۔ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا۔ چا ند پر پہنچ گئے۔ کائنات کو مسخر کر دیا۔ جو اس نقطے سے واقف ہو کہ یہ سب کچھ انسان کا کمال نہیں بل کہ یہ رب کی عطا ہے۔ خدا نے اس کا پُتلا پیدا کیا۔ اسے خلافت کا تاج پہنایا۔
آج امریکا کی حکومت کو پوری دنیا میں مانا جاتا ہے۔ امریکا کا ہاتھ ساری دنیا کی سیاست میں کارفرما نظر آتا ہے۔ کوئی بھی ملک چاہے اسلامی ہو یا غیر اسلامی کسی نہ کسی طرح سے امریکا کا غلام ہے۔ یہ منصوبے بناتے ہیں اور ملکوں میں جاری کرتےہیں۔ ہمارے رہنما ان منصوبوں کو کامیاب بناتے ہیں۔ پوری دنیا کو امریکا نے غلام بنایا۔ مگر وہ خود اپنے اس نظام زندگی کا غلام ہے۔ اپنے معیار زندگی کا غلام ہے۔ جن کے بغیر وہ زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ امریکا میں جو چیز عنقا ہے، وہ حقیقی انسان ہے۔ وہ انسان جس کے دل میں ایک زندہ دل ہو۔ ایک بیدار دل ہو۔ کوئی مشین نہ ہو۔ وہاں انسان اس طرح مشینی زندگی میں ڈھل گیا کہ اب اس کے تصورات بھی مشینی بن گئے۔ اس کے احساسات بھی مشینی بن گئے۔ اس میں جمادات کا اثر آگیا۔ لوہے کا اثر آگیا۔ اس میں رقت نہیں۔ آنکھوں میں انسانیت کے لیے بہنےوالے آنسو نہیں۔ دل میں احساس نہیں۔ یہ وہ حقیقی انسان ہے جو امریکا میں نہیں۔ اس کی سزا پوری دنیا بھگت رہی ہے۔
خدا سے بغاوت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ اپنی عادتوں کے غلام ہیں۔ یہ اپنے بنائے ہوئے آلات کے غلام ہیں۔ جس چیز کو یہ بناتے ہیں۔ کل اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ایک مشین بنتی ہے۔ ایک اصول بنتا ہے۔ ایک معیار بنتا ہے۔ کل سارا ملک اس کا غلام بنتا ہے۔ اپنے ہی بنائے ہوئے اور اپنے ہی تراشے ہوئے بتوں کے غلام بن گئے۔
آج دنیا ایک تاریخی تبدیلی کے دہانے پر ہے۔ اس تبدیلی میں سب سے اہم کردار امریکا کا ہے۔ اپنے ہتھیار بیچنے کے لیے ملکوں میں سازشیں کر کے قومیت، لسانیت اور مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑا رہا ہے۔ جغرافیائی تبدیلیاں، معاشی و سماجی بحران، ماحولیاتی تبدیلی یا مذہبی و لسانی فسادات جن کی وجہ سے انسان کا کرہ ارض پر رہنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بنیادی کردار امریکا ہی کا ہے۔ جہاں انسان نما بھیڑ ہے۔ جو حقیقی انسان نہیں۔ جن میں انسانوں کے لیے تڑپنے والا دل نہیں۔ جن کی آنکھوں میں انسانوں کے لیے بہنے والی آنسو نہیں۔ جو فقط مشینوں کے لیے، خواہشات کے لیے، ہتھیاروں کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ جو انسانوں کو اس وجہ سے لڑاتے ہیں کہ ان کے ہتھیار فروخت ہوتے جائیں۔ ان پیسوں سے وہ اپنی حیوانی خواہشات پوری کرتے رہیں۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات