مہارتیں کیوں اہم ہیں؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، ایک نوجوان ادھر سے گزرتا ہے۔ صحابہ کرام کی اس پر نظر پڑتی ہے اور اس کی توانائی اور چستی سب کو حیران کردیتی ہے۔ صحابہ کرام کہہ اٹھتے ہیں: کاش یہ جوانی اللہ کے رستے میں خرچ ہوتی؟! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: اگر یہ نوجوان اپنے چھوٹے بچوں کے لیے رزق کمانے نکلا ہے تو بھی اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے بوڑھے والدین کے لیے محنت مشقت کرنے نکلا ہے تو بھی اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنے آپ کو فقرو فاقہ سے بچانے کے لیے نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کے رستے میں ہے۔ اگر یہ اس لیے نکلا ہے تاکہ ریا اور فخر کرے تو اس کی محنت طاغوت کے رستے میں ہوگی۔ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر: 282)

حضرت وہب بن منبہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے: ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس اپنے ساتھیوں سے بات چیت میں مصروف تھے کہ اس دوران ایک شخص آپ کے پاس آبیٹھا۔ آپ نے اس سے کہا: میرے پاس آجائیں۔ اس شخص نے کہا: اللہ تعالی آپ کی عمر دراز کرے، مجھے اتنے عمدہ انداز سے سوال کرنا نہیں آتا، جس طرح ان لوگوں نے سوال پوچھے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قریب آجائیں، میں آپ کو قرآن مجید میں مذکور انبیائے کرام کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں تمہیں آدم علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے بندے تھے۔ نوح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک بڑھئی تھے۔ ادریس علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ایک درزی تھے۔ دائود علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ ذرہ بنانے کے ماہر تھے۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ چرواہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہ وہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ صالح علیہ السلام کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ تاجر تھے۔ (مستدرک حاکم، حدیث نمبر: 4221)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صنعت و حرفت کی کتنی اہمیت بیان کی ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے لگائیے: کسی شخص نے کبھی بھی اس سے اچھا کھانا نہیں کھایا، جو وہ اپنے ہاتھوں سے کماکر کھائے۔ بے شک اللہ کے نبی داود علیہ السلام بھی ہاتھ سے کماکر کھاتے تھے۔ (بخاری: 2072) ایک بار دریافت کیا گیا: اللہ کے نبی سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز و درست تجارت۔ (الترغیب و الترھیب، 3/4)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب میں کسی ایسے صحت مند نوجوان کو دیکھتا ہوں جس کی جوانی مجھے متاثر کردے، تو میں پوچھتا ہوں: کیا اسے کوئی مہارت بھی آتی ہے؟ اگر لوگ کہیں کہ نہیں۔ تو وہ نوجوان میری آنکھوں سے گر جاتا ہے۔ اسلام نے مہارت سیکھنے، اسکلز پر توجہ دینے اور نت نئے فنون جاننے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سست، کاہل اور بے کار لوگ نہ دین کے لیے فائدہ مند ہیں، نہ ہی دنیا کے لیے۔ اس لیے معاشروں میں لوگوں کی قدر ان کے پاس موجود مہارتوں کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ جیسی اور جتنی مہارتیں، اتنا ہی قیمتی نوجوان، خاندان اور معاشرہ۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، کم از کم بھی 60ملین نوجوان اس ملک میں ہیں، جو اس ملک کی تقدیر سنوار سکتے ہیں، اسے دنیا کا ترقی یافتہ ملک بناسکتے ہیں۔ اگر ہم حکومتوں پر لعنت و ملامت سے فارغ ہوجائیں تو پھر ہمارے لیے بے شمار پلیٹ فارمز کھلے ہوئے ہیں، جہاں سے ہم مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔ آن لائن کورسز کی ایک دنیا ہے جو ہماری منتظر ہے مگر شارٹ کٹ اور مکھی پر مکھی مارنے کے شوق میں بے شمار نوجوان لاکھوں روپے خرچ کرکے ڈنکی لگاکر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے، اپنے بزنس شروع کرنے، اپنی پروڈکٹس بنانے اور انٹرنیٹ سے سیکھ کر آگے بڑھنے پر توجہ نہیں دے رہے۔

الحمدللہ پاکستان کی گلی گلی، محلے محلے ڈیجیٹل لرننگ کے کورسز شروع ہوچکے ہیں، سوشل میڈیا پر بے شمار لوگ ہیں جو کورسز کروا رہے ہیں، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، گرافک ڈیزائننگ، ویب ڈیولپمنٹ، سیلز مینجمنٹ، ڈیٹا سائنس، اے آئی، مشین لرننگ وغیرہ اتنے پلیٹ فارم ہمارے نوجوانوں کے منتظر ہیں کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی وابستہ ہونے والا نوجوان اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کرسکتا ہے۔ صرف مسئلہ ہے تو ایک ہی، یکسوئی۔ ہمارے نوجوانوں کو یکسوئی حاصل کرنا ہوگی، موبائل فون اور سوشل میڈیا مواد کے جال میں پھنسنے سے بچنا ہوگا۔ اگر آپ ریلز اور شارٹ ویڈیوز دیکھنے میں پوری عمر بھی خرچ کردیں تو کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ اس لیے اپنے آپ پر توجہ دیجئے، اپنی قدر کیجئے۔ اپنے وقت کو قیمتی بنائیے، کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، وہ تو گزر جاتا ہے۔