اسلام آباد/پنجگور/کوئٹہ:ایران اسرائیل جنگ کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے سے پاکستانی معیشت شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ خسارے اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
تیل 75 ڈالرفی بیرل ہونے سے پاکستانی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں2.3 ارب ڈالرکا اضافہ ہوسکتا ہے، تیل 80 ڈالر فی بیرل ہونے سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں دو بلین ڈالر کا منفی اثر ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق تیل 85 ڈالر فی بیرل ہونے سے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر 3.1 ارب ڈالر منفی اثر ہوگا، تیل 90 ڈالر فی بیرل ہونے پرکرنٹ اکائونٹ خسارے میں 3.49 ارب ڈالر اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل ہوئی تو ایک ڈالر 285.4 روپے کا ہوگا، تیل کی قیمت 85 ڈالر فی بیرل ہونے سے ایک ڈالرپاکستانی روپے میں 287.17 روپے کا ہوگا۔
تیل کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل ہونے سے ایک ڈالر 288 روپے کا ہوسکتا ہے، تیل کی قیمت 95 ڈالر فی بیرل ہونے سے ڈالر 290.5 روپے کا ہونے کا امکان ہے، تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل ہوتی ہے تو ایک ڈالر 292.1 روپے کا ہو نے کا امکان ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 80 ڈالرفی بیرل ہونے پرپاکستان میں 35 روپے فی لیٹر اضافہ کرنا پڑیگا، تیل فی بیرل85 ڈالر ہونے سے پاکستان کو پیٹرول کی قیمت میں 55 روپے فی لیٹر اضافہ کرنا پڑیگا، تیل فی بیرل90 ڈالر ہونے سے پاکستان کو پیٹرول کی قیمتوں میں90 روپے فی لیٹر اضافہ کرنا پڑیگا۔
تیل کی قیمت فی بیرل 95 ڈالر ہونے سے پاکستان کو پیٹرول کی قیمتوں میں 130 روپے فی لیٹراضافہ کرنا پڑیگا، تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل ہونے پرپاکستان کوپیٹرول کی قیمت 180 روپے فی لیٹربڑھانا پڑیگی۔ تیل کی ممکنہ قیمت میں 11 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی میں ممکنہ اضافہ شامل ہے۔
ادھرجنگ کی وجہ سے بارڈر بند ہونے سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح سے متاثرہیں 70 فیصد لوگ بے روزگار ہوگئے جن میں بارڈر سے تیل لانے والے گاڑی مالکان ، ڈرائیور، کلینر ،گیراج ،ریڑھی بان ،اسپئیر پارٹس کی دکانین چلانے والے سروس اسٹیشن ،ایرانی تیل اور دیگر اشیاء بیچ کر روزگار کرنے والے افراد شامل ہیں۔
پنجگور بازار جہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی کسی ویران بستی کا منظر پیش کررہا ہے سڑکوں پر سناٹا چھا گیا ہے لوگ شدید بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں بارڈر کی بندش سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے کے ساتھ ساتھ سی پیک پر ہوٹلنگ کا کاروبار بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔
پنجگور جو ملک کا ایک دور دراز سرحدی ضلع ہے روزگار کا موثر ترین زریعہ پاک ایران بارڈر ہے جہاں لوگ کھانے پینے کی اشیاء اور تیل لاکر دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بناتے ہیں مگر اب خطے کے جو حالات بن رہے ہیں۔
پنجگور کی معشیت کا پہیہ بھی رک گیا ہے ہر طرف بے روزگاری کے اثرات نمودار ہو رہے ہیں ایک اندازے کے مطابق پنجگور میں ڈھائی سے تین لاکھ لوگ بارڈر کی بندش سے متاثرہوگئے ہیں جو پہلے ایرانی بارڈر سے دو وقت کی روٹی کماتے تھے۔
دوسری جانب جنگ کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بلوچستان حکومت نے سرحدی اضلاع کے لیے حکمت عملی طے کر لی۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت ایرانی سرحد سے ملحقہ اضلاع کی صورت حال سے متعلق اعلی سطح اجلاس ہواجس میں سرحدی اضلاع کے لیے بجلی اور ایل پی جی کے متبادل ذرائع سے حصول کی حکمت عملی طے کی گئی۔
اجلاس کے اعلامیے کے مطابق وفاق سے رابطے کے ذریعے برقی و ایل پی جی فراہمی بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزیر اعلی نے ہدایت کی کہ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے علاقوں میں اشیائے خور و نوش کی قلت نہ ہونے دی جائے۔
میر سرفراز بگٹی نے کہا بارڈر ایریا میں پیٹرول کی فراہمی کے لیے وفاقی وزارت پیٹرولیم سے رابطہ جاری ہے، بریفنگ میں بتایا گیا کہ بلوچستان کے ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں فی الحال غذائی قلت کا سامنا نہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا یقینی بنایا جائے کہ بارڈر کی مقامی آبادی کو کسی صورت خوراک کی دشواری نہ ہو۔وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ہدایت کی کہ پی ڈی ایم اے کسی بھی غیر معمولی صورتحال کے لیے کنٹی جنسی پلان تیار رکھے اور کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز تمام صورت حال پر کڑی نظر رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زائرین اور طلبہ کی بحفاظت واپسی باعث اطمینان ہے۔اجلاس کو اشیائے خور و نوش، زائرین اور طالب علموں کی واپسی کے اقدامات پر بھی بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں کمشنر مکران، رخشان اور بارڈر اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز ویڈیو لنک پر شریک ہوئے جب کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پولیس بلوچستان نے اجلاس کو بریفنگ دی۔