غزہ/عمان/نیویارک/قاہرہ:غزہ کی وزارت صحت نے بدھ کے روز دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں 144 فلسطینی شہید اور 560 زخمی ہوئے ہیں۔
اس لرزہ خیز خونریزی کے ساتھ 7 اکتوبر2023ء سے شروع ہونے والی نسل کشی کے شکار فلسطینیوں کی تعداد 55 ہزار 637 اور 1 لاکھ 29 ہزار 880 زخمیوں تک جا پہنچی ہے۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ ان شہداء میں چھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی لاشیں اْن مقامات سے نکالی گئیں جہاں کچھ عرصہ قبل قابض اسرائیل نے بمباری کی تھی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگاروں کے مطابق غزہ کے جنوب مشرقی علاقے الزیتون میں علی مسجد کے نزدیک ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا جس میں 8 شہری شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
وسطی غزہ کے المغازی کیمپ میں غمری خاندان کا گھر بھی اسرائیلی جنگی طیاروں کے نشانے پر آیا یہاں 6 شہریوں کو شہید کیا گیا جب کہ کئی دیگر شدید زخمی ہوئے۔شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے رہائشی مکانات کو دھماکوں سے اڑادیا۔غزہ کے وسطی علاقے شارع صلاح الدین پر اسرائیلی حملے میں 11 فاقہ زدہ فلسطینی شہید ہو گئے، جو امدادی سامان کے منتظر تھے۔
اس دلخراش حملے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔خان یونس کے علاقے مواصی کی العطار پٹی میں صیہونی فوج نے بے گھر افراد کی خیمہ بستی کو نشانہ بنایا جس میں 5 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ صہیونی فوج نے غزہ کے مشرقی علاقوں میں روبوٹ بم نصب کر کے انہیں دھماکوں سے اڑا دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلائی جا سکے۔غزہ کی مرکزی شارع صلاح الدین پر امداد کے منتظر نہتے فلسطینیوں پر بیک وقت توپوں سے گولہ باری کی گئی اور ڈرونز کے ذریعے براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے صورتحال مزید خونریز ہو گئی۔
خان یونس کے علاقے مواصی میں واقع ”صمود کیمپ” میں قابض فوج نے خودکش ڈرون سے بے گھر افراد کے خیمے اڑا دیے جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔خان یونس کے مغربی علاقے کتیبہ کے گرد قابض فوج کی گاڑیوں سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جب کہ النصیرات کیمپ کے شمال میں بھی ایسی ہی کارروائیاں کی گئیں۔
دوسری جانب غاصب اسرائیل کی فوج نے بدھ کی صبح غرب اردن کے مختلف علاقوں میں درندگی اور وحشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور گھروں پر چھاپے مارے۔ سلفیت، قلقیلیہ اور الخلیل کے اضلاع کو نشانہ بنایا گیا جہاں کم از کم چالیس بے گناہ فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
دوسری جانب غرب اردن کا محاصرہ مسلسل چھٹے دن بھی جاری ہے جس سے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔سلفیت میں قابض فوج نے 14 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا۔
ان کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا۔ اشیائے ضروریہ کو تباہ کیا گیا اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کارروائیاں اس وقت کی گئیں جب شہر کے داخلی و خارجی راستے پہلے ہی بند کیے جا چکے تھے۔
قابض فوج نے شہر کے مختلف محلوں کفر سابا، النقار، شارع جلجولیہ اور النفق میں چھاپے مارے۔ صیہونی درندوں نے شہداء کی یادگاروں کو مسمار کر دیا۔مشرقی قلقیلیہ کی بلدیہ عزون پر چھاپے کے دوران صیہونی فوج نے دیواروں پر دھمکی آمیز اشتہار چسپاں کیے۔
ادھراقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ایجنسی ”انروا” نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کا نظام صحت ایک نہایت سنگین اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ غزہ پر قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی، طبی مراکز پر بڑھتے ہوئے حملے اور دو سال سے جاری جنگی درندگی نے صحت کے پورے ڈھانچے کو مفلوج کر دیا ہے۔
”انروا” نے بدھ کے روز اپنے سرکاری بیان میں واضح کیا کہ غزہ میں 45 فیصد بنیادی طبی سامان مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور بقیہ سامان کا ایک بڑا حصہ اگلے چھ ہفتوں میں ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
اہم ادویات اور خون کی دستیاب مقدار جسے عطیہ دہندگان سے جمع کیا جاتا ہے تیزی سے ناپید ہو رہی ہے جب کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
قابض اسرائیلی افواج نے غزہ میں صحت کے نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ہسپتالوں پر براہ راست حملے کیے جن میں سے بیشتر کو مکمل طور پر تباہ یا ناقابل استعمال بنا دیا گیا۔ وزارت صحت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، پورے غزہ میں صرف 16 ہسپتال ہی کسی حد تک کام کر رہے ہیں جن میں 5 سرکاری اور 11 نجی ادارے شامل ہیں جب کہ کل 38 ہسپتال موجود تھے۔
ان کے علاوہ 8 فیلڈ ہسپتال ہنگامی حالات میں مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ حماس نے قابض اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ درندگی کی سخت الفاظ میں اظہارِ مذمت کیا ہے۔ تحریک نے واضح کیا ہے کہ غزہ کے بھوکے اور بے بس فلسطینی شہریوں کو امدادی مراکز کے قریب نشانہ بنانا جنگی جرائم کی بدترین مثال ہے جو تقریباً بیس ماہ سے جاری نسل کشی کی درندگی کا حصہ ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں قابض اسرائیل کی جنگی وحشت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو غزہ کے مختلف علاقوں میں شہری آبادی پر بے رحمانہ حملے کر کے نہ صرف سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے بلکہ خاص طور پر امدادی مراکز کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران غزہ میں تقریباً ایک سو پچاس شہید ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو مدد کے لیے جمع تھے۔حماس نے کہا کہ قابض اسرائیل کی اس کارروائی میں امریکا کا بھرپور تعاون شامل ہے اور امدادی مراکز پر حملے ایک منظم تشدد اور ظلم کی واضح مثال ہیں جو فلسطینی شہریوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی سازش ہے۔
علاوہ ازیںاقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے خوراک کے متلاشی غزہ کے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے مجرمانہ اقدام کو ”ناقابلِ قبول” قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس بہیمانہ جرم کی فوری اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان فرحان حق نے جنیوا میں روزانہ کی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ خوراک کی تلاش میں نکلنے والے نہتے شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا انسانیت کی توہین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری جنرل گوتریس نے فلسطینی شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے اس ظلم پر خاموش نہ رہنے کی اپیل کی ہے۔
ادھرغزہ میں نسل کشی کے خلاف مصر کی سرحد تک مارچ کرنے والے عالمی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مصری سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور اغوا کیا گیا۔عالمی خبررساںادارے کے مطابق قاہرہ میں سادہ لباس اہلکاروں نے مارچ میں شریک 3 غیر ملکی کارکنوں کو اغوا کیا اور ان پر تشدد کیا۔
مارچ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ناروے کے یوناس سیلہی، حذیفہ ابوسریعہ اور ہسپانوی فلسطینی کارکن سیف ابو کشیک کو قاہرہ کے ایک کیفے سے زبردستی اٹھایا گیا۔ سیلہی کے مطابق انہیں اور ان کے ساتھیوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر مارا پیٹا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی، سیف ابو کشیک پر مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔
4 ہزار سے زائد کارکن 80 مختلف ممالک سے مارچ میں شرکت کے لیے مصر پہنچے تھے جنہیں قاہرہ کے باہر چیک پوائنٹس پر روکا گیا، ترجمان کے مطابق کارکنوں کو بات چیت کے بعد اچانک سیکورٹی اہلکاروں نے زبردستی بسوں میں دھکیلنا شروع کردیا کئی افراد کو مارا پیٹا گیا جن میں بعض کو ہسپتال پہنچانا پڑا، ایک خاتون کو بھی چہرے پر مکا مارا گیا۔
عینی شاہد نے بتایا کہ مظاہرین پر سادہ لباس، نقاب پوش افراد نے چابک نما آلے سے حملہ کیا، اچانک اس علاقے کی اسٹریٹ لائٹس بند ہوگئیں اور علاقہ تاریکی میں ڈوب گیا، ہم صرف اندھیرے میں چیخیں سنتے تھے، انہوں نے جان بوجھ کر اندھیرے میں حملہ کیا۔
منتظمین کے مطابق اس مارچ کا مقصد مظاہرہ کرنا نہیں بلکہ غزہ کی سرحد کی طرف پرامن مارچ کرنا تھا مگر بڑھتی ہوئی گرفتاریوں کے بعد انہوں نے قاہرہ کے قریب اسماعلیہ شہر میں جمع ہونے کا فیصلہ کیا۔منتظمین نے مصری حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سیف ابو کشیک اور دیگر زیرِ حراست مظاہرین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔