ایران کی تنہائی۔ اکیلے ہی پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر!

گزشتہ دو سالوں میں مشرقِ وسطیٰ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل کی غزہ کی نسل کشی اور ایران پر چڑھائی مغربی اور امریکی حامی ملکوں کی تائید ومعاونت سے دیکھ کر انسانیت پرستی کے سب مغربی مشرقی فلسفے دم توڑ چکے ہیں۔ موجودہ ریاستی نظام میں صرف طاقت کاسکہ چلتا ہے۔ اگر آپ کے پاس طاقت اور دولت کی فراوانی ہے تو پھر اس کے مطابق اپنے قومی مفادات کا تعین کریں اور موثر طریقے سے انہیں حاصل کریں۔

حقیقت پسندی حکمت اور دانش مندی کا دوسرا نام ہے۔ سوچیں، جیب میں چند سکے ہیں اور بازار میں جا کر آپ کی خواہش آسمان کو چھونے لگے تو پشیمانی تو ہو گی۔ یہ مسئلہ تمام مسلم ممالک کی سیاسی تحریکوں اور حکمران طبقات کا ہے کہ وہ مغل حکمرانی کا طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں کہ اپنے سیاسی حریفوں کو پہلے راستے سے ہٹاؤ’ باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔

ایران کی حکمت عملی گزشتہ 45سالوں سے یہ رہی کہ غیر ریاستی حامی تحریکیں ارد گرد کے مسلم ممالک میں قائم کرکے انہیں ایک لیور اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اگر کوئی ملک ریاست میں ایسے عناصر’ ان کا نظریاتی رنگ ڈھنگ جو بھی ہو’ تشکیل دے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے تو وہاں کے حکمرانوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔ ظاہری رکھ رکھاؤ سفارت کاری میں ہوتا ہے’ اس پر نہ جائیں’ اندر سے عرب ممالک ایران کے خلاف تھے۔ عرب ممالک کے نمائندوں کو نجی محفلوں میں ایران کی ایٹمی صلاحیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ عرب ممالک ایران کی غیر ریاستی عناصرکی معاونت کی پالیسیوں اور ایٹمی پروگرام سے نالاں تھے۔
اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

اسرائیل نے حملے سے قبل ایران کو ٹریپ کرنے اور حملے کامنصوبہ چھپانے کے لیے فریب کاری کا مظاہرہ کیا۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق دنیا جوہری مذاکرات کے ایک نئے دور کا انتظار کر رہی تھی اور ذرائع ابلاغ میں نیتن یاہو کی تعطیلات اور ان کے بیٹے کی شادی کی خبروں کا چرچا تھا۔

اسرائیلی حکومت نے غزہ میں یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات کی آڑ میں قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا اور دعویٰ کیا کہ اس کے اعلیٰ عہدے دار متوقع جوہری مذاکرات میں شرکت کے لیے امریکا روانہ ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس فریب کاری سے ایران کو غافل رکھنا اور اس کے رد عمل کو مؤخر کرنا مقصود تھا تاکہ اسرائیلی حملہ اچانک اور مؤثر ہو۔ اسی منصوبہ بندی کے باعث ایرانی دار الحکومت تہران میں سکیورٹی اور عسکری اداروں کے اعلیٰ کمانڈروں سمیت جوہری پروگرام سے وابستہ متعدد افراد پہلے حملے ہلاک کردیے گئے۔

بیانات کچھ بھی ہوں عرب حکمران خوش ہیں کہ ایران کے اس علاقے میں پھیلے دست و بازو کاٹ دیے گئے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے بارے میں عرب ممالک بھی تحفظات رکھتے تھے۔

ایرانی قیادت نے انقلاب کے بعد جوحکمتِ عملی اپنائی، اس نے ایرانی عوام، اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ پہنچایا؟ ‘انتقالِ انقلاب’ کے ساتھ ‘شیطانِ بزرگ’ کے خلاف قوم کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھا گیا’ جس کا ایک نتیجہ عراق ایران کی آٹھ سال پر محیط جنگ تھی اور دوسری یہ جنگ ہے جس نے ایران کو مزید مضمحل کر دیا ہے۔ ایران دنیا میں تنہا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ اس کے انقلاب برآمد کرنے کے اقدامات تھے۔
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب کرنے کو بھی ہنر چاہیے

اسی طرح ایران کی اسرائیل کو جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے روکنے میں ایرانی انٹیلی جنس کی مکمل غفلت بھی اس کے پاؤں کی زنجیر بن گئی، تہران کے قریب موساد کے مرکز کی ایران کو اطلاع تک نہ ہو سکی۔ اسرائیل نے ایران کی فوجی اور پاسداران کی قیادت کے ساتھ ایٹمی سائنسدانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔

غزہ میں جنگ کے ساتھ دو بڑی تبدیلیاں لبنان اور شام میں ہوئیں’ جن کے بارے میں چند سال پہلے سوچنا تک ناممکنات میں سے تھا۔ لبنان سے حزب اللہ کا صفایا ہوا۔ آپریشن رائزنگ لائن کے گرد حالیہ واقعات نے مشرق وسطی میں اسرائیل اور امریکا کی طرف سے کھیلے جانے والے خطرناک کھیل کو طشت از بام کردیا۔ ٹرمپ کے ایران سے جوہری پروگرام ترک کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے مطالبے نے صورتحال کی پیچیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایران سفارتی سطح پر بھی بالکل تنہا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور یو اے ای نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی مگر عرب ممالک بھی ایران کے ساتھ کھڑے نہیں۔ ایران کے بیشتر میزائل اور ڈرونز اردن اور عراق نے ناکارہ بنائے، جہاں امریکی ایئر ڈیفنس سسٹم موجود ہیں۔

ایران نے اس حملے کو ”آپریشن الوعد الصادق 3” کا نام دیا ہے۔ اس سے قبل ایران نے پہلا حملہ ”الوعد الصادق 1” اپریل 2024ء میں اور دوسرا ”الوعد الصادق 2” اکتوبر 2024ء میں کیا تھا۔

پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے دوران عالمی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا کیا تھا، اسرائیل اور بھارت نے تو پاکستان نیو کلئیر سائٹ کو نشانہ بنانے تک کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ پاکستان نے نہ صرف یہ منصوبہ ناکام بنایا بلکہ عالمی دباؤ کے باوجود کامیابی سے ایٹم بم بھی بنا لیا۔ ایرانی قیادت اب تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ سفارتکاری میں جذبات کی بجائے مفاہمت اور مصلحت سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ایران کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائے، جس سے وہ کسی بھی قسم کے بڑے بحران سے بچ سکے۔

امریکا نے طے کر لیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیہ تبدیل ہوگا اور تاریخ بھی۔ اسرائیل میں امریکی سفیر نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل اب قصہ پارینہ ہے۔ فلسطینیوں کو اب کسی مسلم ملک میں آباد ہونا ہوگا۔ بین السطور بتایا گیا کہ سارا فلسطین اب اسرائیل ہوگا۔ ٹرمپ کا اپنی صدارت کے پہلے دور میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنا اسی منصوبے کا اعلان تھا کہ امریکا یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) کو اسرائیل کا حصہ مانتا ہے۔ اس منصوبے کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے گئے۔ ایران پر موجودہ حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

ایران اور عالم اسلام میں عقل و خرد کی بجائے جذبات کی حکمرانی ہے، اسے چیلنج کیا جائے تو غداری کا سرٹیفکیٹ تھما دیا جاتا ہے۔ تاریخ نے مسلم قیادت کو بارہا مواقع فراہم کیے کہ وہ نئے عالمی سیاسی بندوبست کو سمجھے اور اس میں شریک ہو جائے تاکہ اس کے مفادات کا ممکن حد تک تحفظ ہو سکے۔ کسی نظام کی مزاحمت اسی وقت ثمرآور ہو سکتی ہے جب آپ اسے ختم کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ بصورتِ دیگر اس وقت کا انتظار اور اس کے لیے تیاری کی جاتی ہے، جب مزاحمت نتیجہ خیز ہو۔

ایران ایٹمی قوت بننا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی حکمتِ عملی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پاکستان نے دنیا کی مخالفت کے باوجود اگر یہ ہدف حاصل کیا تو اس کے پیچھے صبر اور حکمت تھی۔ ایران کو صبر اور حکمت سے کام لینے کے ساتھ مذہبی پیشوائیت اور سیاسی قیادت کا فرق بھی سمجھنا ہوگا۔

جنگ تباہی لاتی ہے لیکن مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔ راکھ کے اس ڈھیر میں اتنی چنگاری تو ہونی چاہیے۔ ہم دنیا سے جنگ نہ کریں مگر اپنے وجود کا اظہار تو کریں۔ خود احتسابی کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ مختصر یہ کہ اگر ایران جوابی کارروائی کی استعداد قائم رکھ سکا اور اس کے حملوں سے اسرائیل کو نقصان پہنچا تو جنگ بندی ہو جائے گی ورنہ دنیا تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوتے دیکھے گی جو ہم سب کیلئے نہایت اذیت ناک بھی ہوسکتا ہے!