20 ماہ سے جاری جنگ سے تھکے اسرائیلیوں کےلئے ایران جنگ عذاب بن گئی

رپورٹ: علی ہلال
سات اکتوبر 2023ء سے غزہ پر آہن واتش برسانے والے اسرائیل کے باشندوں نے ہفتے اور اتوار کی راتیں بہت چینی، اضطراب اور خوف کے سائے میں گزاری ہیں۔
اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہاکابی نے بتایا کہ وہ ایک سخت رات تھی۔ ایران کی جانب سے میزائل حملوں نے انہیں بھی شدید خوفزدہ کردیا تھا اور انہیں رات میں پانچ مرتبہ شیلٹر ہاوس میں پناہ لینے کے لیے داخل ہوگئے۔ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے امریکی سفیر نے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور وزیردفاع یسرائیل کاٹز بھی شیلٹر ہاوس میں پناہ لیے صورتحال کی مانیٹرنگ کررہے تھے۔ رپورٹ کے جمعہ کی رات اسرائیل نے ایران پر حملے کا آغاز کرتے ہوئے جنگی طیاروں اور میزائلوں سے ایران کے ایٹمی تنصیبات ، دفاعی مراکز اور اعلی حکام کے مکانات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایران کے سینئر ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ پاسداران انقلاب فورسز کے سربراہ اور چیف اف آرمی سٹاف سمیت 20 اعلی عہدیدار زندگی کی بازی ہار گئے۔
ایران پر ہونے والے حملوں پر عالمی سطح پر مختلف ممالک کی جانب سے بیانات سامنے آرہے تھے جن میں بہت سے ممالک نے اسرائیلی حملوں کو ایران کی خود مختاری کا منافی قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ اسرائیلی حملوں کے اٹھارہ گھنٹے بعد جمعہ کو رات کو ایران نے بھی اسرائیل پر حملہ کردیا۔ الوعد الصادق 3 کے کوڈ نام سے ہونے والے اس حملے میں ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل برسائے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران نے چھ راونڈرز میں میزائل حملے کرکے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب اور دیگر متعدد شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔ جہاں بڑے پیمانے پر عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملوں میں اب تک تین اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 200 تک پہنچی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ اب تک جاری ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے شہروں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنارہے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق امریکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ امریکی توقعات کے مطابق ایران اسرائیل جنگ ایک ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تنازع کی زد میں خلیجی ممالک بھی آئیں گی، اگر ایران اسرائیل کی محفوظ فوج اور دیگر اہداف کو تباہ نہ کر سکا تو پھر ایرانی میزائلوں کا ہدف خلیجی مماک میں عوامی مقامات ہوں گے خاص طور پر وہ ممالک نشانے پر ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں ایران یہ سمجھتا ہے کہ وہ سالہا سال سے اس کے دشمنوں کی حمایت کر رہے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں اگر اس لڑائی میں مزید شدت آتی ہے توامریکہ بھی اس جنگ کا حصہ بن جائے گا۔امریکا کے تمام تر انکار کے باوجود ایران کو یہ لگتا ہے کہ امریکی فورسز نے اسرائیل کو شہ دی ہے یا کم از کم اسرائیلی حملوں کی کھل کر حمایت کی ہے۔ایران مشرق وسطی میں امریکی اہداف، جیسے عراق میں اسپیشل فورسز کے کیمپس، خلیج میں فوجی اڈے اور اس خطے میں سفارت مشنز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ گروہ حماس اور حزب اللہ ہو سکتا ہے کہ بہت کمزور ہو گئے ہوں مگر ایران کی عراق میں حمایت یافتہ ملیشیا ابھی بھی مسلح ہے اور کارروائیاں کر رہی ہے۔ ان ممالک میں امریکا کے فوجی اڈے بھی ہیں۔ اگر خلیج پر حملہ ہوتا ہے تو پھر یہ ممالک اپنے اور اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکا طیاروں کو متحرک کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
اسرائیلی جریدے یدیعوت احرونوت کے مطابق ایرانی حملوں سے تل ابیب اور رمات غان کے شہروں میں بالخصوص گریٹر تل ابیب میں بہت اور غیر معمولی نقصان ہوا ہے۔ تل ابیب میں ایک 32 منزلہ عمارت کو شدید نقصان پہنچاہے جہاں سے 300 اسرائیلی باشندوں کو نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے۔ ہارٹز کے مطابق ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں رمات غان میں 9 عمارتیں کلی طور پر تباہ ہوگئی ہیں جبکہ سینکڑوں عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچاہے۔ ایرانی میزائل حملوں سے تل ابیب سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اہم ترین اسرائیلی ریشوں لیتسیون میزائل نشانہ بنارہے جہاں دو ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریتشون لیتسیون قدیم یہودی ابادی پر تعمیر کردہ شہر ہے۔ جس کی اسرائیل میں ایک بڑی اہمیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس میں مزید تباہی اور نقصانات ہوگئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ادھر اسرائیلی عوام میں شدید خوف وہراس پھیلا رہاہے۔ بظاہر اسرائیلی حکومت تو حوصلے میں نظر آرہی ہے۔ اور اسرائیلی حکام بڑے مطمئن ہیں
تاہم غزہ میں گزشتہ بیس ماہ سے جاری جنگ سے اسرائیلی باشندے تنگ آ چکے ہیں۔ ایک چھوٹے اور تنگ علاقے میں رہتے ہوئے اردگرد کے بیشتر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں  جس نے اسرائیل کے شہریوں کو بہت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی سیر و سیاحت کےلئے اہم اور سستی جگہ ترکی سمجھا جاتا تھا تاہم غزہ پر بیس ماہ سے جاری خونریز جنگ نے اسرائیلی باشندوں کے بارے میں وہاں کے عوام کے مزاج کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اب اسرائیلی شہری خود کو وہاں خوش محسوس نہیں کرتے۔ ان حالات نے اسرائیلی شہریوں کے نفسیات پر شدید دباو ڈال دیاہے اور وہ بری طرح سٹپٹائے اور پریشان ہیں۔