غزہ/برسلز/قاہرہ/کوالالمپور/پیرس/نیویارک/ایمسٹرڈیم: حماس کی عسکری شاخ القسام بریگیڈز نے اعلان کیاہے کہ ان کے مجاہدین نے خان یونس کے مشرقی علاقے الزنہ میں قابض اسرائیلی فوج اور ان کی بکتر بند گاڑیوں پر ایک منظم اور مہلک گھات لگا کر حملہ کیا۔
الاقصیٰ کی حفاظت پر جانیں نچھاور کرنے والے ان دلیر مجاہدین نے اطلاع دی کہ انہوں نے دشمن کی دو بکتر بند گاڑیوں کو بالکل قریب سے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ”شواظ” نامی دھماکا خیز مواد اور ایک دوسرا بم استعمال کیا گیا جو مزاحمت کی تیاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
القسام بریگیڈز کے مجاہدین نے دھماکوں کے بعد دشمن کی گاڑیوں کی طرف پیش قدمی کی اور ایک قابض اسرائیلی فوجی کو نہایت قریب سے جہنم واصل کر دیا۔ جیسے ہی قابض افواج کی امدادی ٹیم موقع پر پہنچی مجاہدین نے پہلے سے نصب بارودی سرنگوں کا میدان دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں قابض فوج کے کئی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔
بعد ازاں مزاحمتی مجاہدین نے قابض اسرائیلی زخمیوں کو نکالنے کے لیے آنے والی فوجی ہیلی کاپٹروں کی آمد کو بھی ریکارڈ کیا جو دشمن کی پسپائی اور شکست کا ثبوت تھا۔ایک اور اعلان میں القسام بریگیڈز نے بتایا کہ انہوں نے خان یونس کے مشرق میں واقع صہیونی آبادکاروں کے کیمپ ”نیرِیم پر 114 ملی میٹر” کے رجوم راکٹ سسٹم سے حملہ کیا۔
یہ حملہ اس سرزمین پر صہیونی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کے مسلسل ردعمل کا حصہ ہے۔دوسری طرف اسلامی جہاد کے عسکری ونگ سرایا القدس نے بھی خان یونس کے مشرقی علاقے قدیح میں قابض اسرائیلی فوج کے جمع شدہ دستوں اور ان کی بکتر بند گاڑیوں پر 60 ملی میٹر کے مارٹر گولوں کی بوچھاڑ کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ”السناطی” نامی نئی صہیونی چوکی پر جو خان یونس کے مشرق میں واقع ہے، قابض فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کو بھاری مارٹر گولوں سے نشانہ بنایاجبکہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں جھڑپ کے دوران آر پی جی کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگیا۔
اسرائیلی فوج نے اتوار کی صبح بتایا کہ مقبوض بیت المقدس سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ سارجنٹ فرسٹ کلاس (ریزرو) نوام شیمش کفیر بریگیڈ کی شمشون بٹالین میں اسکواڈ کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔
فوج کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق شیمش آر پی جی حملے میں ہلاک ہوا جب کہ اسی واقعے میں ایک اور فوجی معمولی زخمی ہوا۔تازہ ترین ہلاکت کے بعد غزہ میں زمینی کارروائی کے دوران مارے گئے صہیونی فوجیوں کی تعداد 430 تک جاپہنچی ہے۔
ادھرغزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید58فلسطینی شہید ہوگئے ۔الجزیرہ نے مقامی صحت حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں غزہ کی پٹی میں کم از کم 58 فلسطینی شہید ہو گئے ۔
کئی فلسطینی امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فائونڈیشن (جی ایچ ایف) کے امدادی مرکز کے قریب شہید ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مرکزی غزہ کے علاقے میں واقع الشفا اور الاقصیٰ ہسپتالوں میں موجود طبی عملے نے بتایا کہ کم از کم 15 افراد اس وقت جاں بحق ہوئے جب وہ نیٹزاریم کاریڈور کے قریب جی ایچ ایف کے امدادی تقسیم کے مقام کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
باقی افراد غزہ کے محصور اور مسلسل بمباری کا شکار دیگر علاقوں میں مختلف حملوں میں شہید ہوئے۔
ادھرفلسطینی ٹیلی کمیونیکیشن ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایاکہ غزہ کی پٹی میں3روزہ بلیک آئوٹ کے بعد انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی ہے جس کا الزام اسرائیلی فوج پر عائد کیا جا رہا ہے۔
ریگولیٹری ادارے کے سی ای او لیث دارغمہ نے کہا کہ اب پوری غزہ پٹی میں نیٹ ورک فعال ہے۔فلسطینی اتھارٹی کی وزارتِ مواصلات نے رواں ہفتے کے آغاز میں اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فائبر آپٹک کیبل کو نشانہ بنانے کے بعد انٹرنیٹ اور فکسڈ لائن مواصلات بند ہو گئے تھے۔
اسرائیل نے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔وزارت مواصلات کا کہنا تھا کہ مرمت کرنے والی ٹیمیں ابتدا میں ان علاقوں تک محفوظ طریقے سے رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہیں جہاں نقصان ہوا تھا۔
فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا کہ انٹرنیٹ بلیک آئوٹ نے ان کی امدادی سرگرمیوں کو متاثر کیا کیونکہ فیلڈ میں موجود ایمرجنسی ریسپانڈرز سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، ادارے نے اس بندش کا ذمہ دار بھی اسرائیل کو ٹھہرایا۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ جب دنیا کی توجہ اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع پر مرکوز ہے تو اسرائیلی فوج غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حملے مزید تیز کر سکتی ہے۔
دوسری جانب یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر اور بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کا اہتمام کیا گیا ۔برسلز میں ہونے والے فلسطین کے حق میں اس مظاہرے کو ریڈ لائن کا نام دیا گیا ہے۔
مظاہرہ انسانی حقوق، نوجوانوں کی تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کے تحت کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔اسپین کے شہر بارسلونا میں بھی فلسطینیوں کے حق میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور عالمی برادری سے فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کا مطالبہ کیا۔
ہالینڈ میں بھی اتوار کے روزمظاہرے میں اسرائیل کے غزہ کے محاصرے اور ڈچ حکومت کی جنگ کی پالیسی کی مخالفت کی گئی۔منتظمین کے مطابق ایک ماہ میں دوسری بڑی ریلی میں ڈیڑھ لاکھ افراد شریک تھے۔
شرکا نے اسرائیل کے جاری حملوں اور فلسطینیوں کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے خلاف”سرخ لکیر” بنانے کے لیے سرخ لباس زیب تن کیے تھے۔دریں اثناء گلوبل مارچ ٹو غزہ میں شرکت کے لیے مصر پہنچے نیلسن منڈیلا کے نواسے کا پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کے نواسے زیوویلی ویلیے مینڈیلا کا کہنا ہے کہ وہ قاہرہ میں چیک پوائنٹ پر موجود ہیں اور ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا ہے۔خیال رہے کہ گلوبل مارچ ٹو غزہ اسرائیلی ناکا بندی کو توڑنے کی تحریک ہے جس نے غزہ کو قحط کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
مارچ میں 80 سے زائد ممالک کے تقریباً 4,000 رضاکار شامل ہوں گے۔علاوہ ازیںملائیشیا کی سول سوسائٹی تنظیموں نے غزہ کے مظلوم عوام کی امداد اور قابض اسرائیل کے مسلط کردہ ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کیلئے ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز عالمی اقدام کا اعلان کر دیا ہے جسے ہزار ”جہازوں کا بیڑا” کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بیڑا دنیا بھر سے مختلف براعظموں سے ہزار سے زائد کشتیوں کے ذریعے قابض ریاست کے ظلم کے خلاف ایک بیدار انسانی ضمیر کی صدا ہوگا۔یہ اعلان ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں منعقدہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کیا گیا۔
اسلامی تنظیموں کے رابطہ بورڈ MAPIM کے صدر عزمی عبد الحمید نے بتایا کہ یہ عظیم الشان مہم دراصل غزہ کے عوام پر قابض اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے نسل کشی جیسے جرائم کے ردعمل میں شروع کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مہم کو یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی کئی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔عزمی عبد الحمید نے کہا کہ حال ہی میں قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے میڈلین نامی امدادی کشتی کو روکے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں ایک بار پھر غزہ میں جاری انسانی المیے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
اسی سانحے نے بین الاقوامی برادری کو جھنجھوڑا اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہزار جہازوں کا بیڑا2010ء کے مشہور آزادی بیڑے کی نسبت زیادہ منظم، مربوط اور وسیع تر ہوگا۔
فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ نیویارک میں سعودی عرب کے ساتھ منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں ان کا ملک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
عرب ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے سوال کیا گیا کہ کیا فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی شرائط ہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی شرائط نہیں۔ریاست کو ایک طریقہ کار کے تحت تسلیم کیا جائے گا جس میں غزہ کی جنگ کو بند کرنا، انسانی امداد کو بحال کرنا، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کروانا اور حماس کو غیر مسلح کرنا شامل ہے یہ ایک پیکیج ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف نے غزہ کی تباہ حال سرزمین پر پھیلتی قحط سالی اور انسانی المیے سے متعلق ایک اور ہولناک انتباہ جاری کیا ہے، خاص طور پر بچوں کی حالت زار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس وقت وہاں خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید کمی ہے اور یہ صورتحال لمحہ بہ لمحہ مزید اندوہناک ہوتی جا رہی ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر جو ان دنوں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں موجود ہیں نے غزہ کے حالات کو خوفناک، تاریک اور نہایت ظالمانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی خاندان روزانہ اس چیلنج سے دوچار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ایک وقت کا کھانا بھی فراہم کر سکیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں آنے والے بم اور میزائل خوراک سے کہیں زیادہ ہیں۔
ایلڈر نے ترک خبررساں ادارے اناطولیہ سے گفتگو میں کہا کہ 2 مارچ کو غزہ کی سرحدی گزرگاہیں بند کرنے کے بعد سے قابض اسرائیل کے محاصرے نے 24 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو دانستہ طور پر قحط کی طرف دھکیل دیا ہے اور اقوام متحدہ اس ظالمانہ پالیسی کو جبری ہجرت کی تیاری قرار دے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک عارضی جنگ بندی کی امید نے چند دنوں کیلئے تھوڑا سا سکون بخشا تھا جب کچھ انسانی امداد، پانی اور خوراک کی آمد ممکن ہوئی۔ مگر یہ سہارا جلد ہی دوبارہ ایک بدترین محاصرے میں بدل گیا اور یوں غزہ ایک بار پھر بھوک، بمباری اور بے گھر ہونے کے دردناک چکر میں جا پھنسا۔
اقوام متحدہ کے مطابق قابض اسرائیل کی جانب سے سرحدی بندش اور امدادی سامان کی راہ میں رکاوٹوں نے غزہ میں غذائی قلت کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے جو کہ براہِ راست نسل کشی اور جبری ہجرت کے مترادف ہے۔
جیمز ایلڈر نے مزید کہا کہ غزہ کے عوام راتوں کو بمباری سہتے ہیں اور دن کے اجالے میں بھوک سے بچنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ انسان کی قوت برداشت کی تمام حدیں ٹوٹ چکی ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ہزاروں خاندان مسلسل نقل مکانی پر مجبور ہیں چھ ماہ سے خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور بہت سے لوگ اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دوسرا سال ہے کہ عید الفطر غزہ کے لوگوں پر اداسی، غربت اور ویرانی لے کر آئی۔
نہ گھر بچے، نہ کھانے کو کچھ ہے نہ خوشی، صرف غم، درد اور شہیدوں کی یادیں باقی رہ گئیں۔ ایلڈر نے دل دہلا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ کئی مائیں دو دو دن فاقے کرتی ہیں تاکہ اپنے بچوں کو ایک وقت کی خوراک دے سکیں۔
ایسے بچوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے جو بھوک یا قابلِ علاج بیماریوں سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شدید غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی معمولی بیماریوں سے موت کے امکانات دس گنا بڑھ چکے ہیں۔
یہ ایک خونی چکر ہے۔ غذا کی قلت، آلودہ پانی اور طبی سہولیات کی مکمل غیر موجودگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ہسپتال جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا کیونکہ زیادہ تر طبی مراکز تباہ یا ناکارہ ہو چکے ہیں۔
غزہ میں 38 میں سے صرف 19 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں جب کہ 9 فیلڈ ہسپتال محدود پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ قابض اسرائیل کی جارحیت نے شعبہ صحت کی بنیادیں چور چور کر دی ہیں۔