بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ، بمباری، 90 شہید، 605 زخمی

غزہ/لندن/پیرس:غزہ کی زخم خوردہ سرزمین پر ایک بار پھر خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ قابض اسرائیل کی تازہ درندگی میں صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 90 فلسطینی شہید اور 605 شدید زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ المناک اعداد و شمار وزارتِ صحت غزہ نے ہفتے کے روز جاری کیے۔وزارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے اندر جو لاشیں اور زخمی ہسپتالوں تک پہنچے ان میں 29 شہداء وہ معصوم شہری تھے جو امداد کے انتظار میں کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں بھوک کے مارے امدادی تھیلے تھے اور دل میں زندہ رہنے کی آخری امید۔

ان پر بھی قابض اسرائیلی طیاروں نے موت کی بارش کر دی۔اس بہیمانہ بمباری کے نتیجے میں صرف دو دنوں میں 274 افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں جب کہ 2532 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

زخمیوں کی بڑی تعداد میں وہ ہیں جن کے جسم کے اعضا بکھر گئے جن کے پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے اور جن کا اب کوئی سائبان نہیں بچا۔وزارتِ صحت نے ایک اور بھیانک حقیقت کا انکشاف کیا کہ 2025ء کی 18 مارچ سے اب تک قابض اسرائیلی حملوں میں شہداء کی تعداد 5014 ہو چکی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 16385 سے تجاوز کر چکی ہے۔

اگر سات اکتوبر 2023ء سے جاری نسل کشی کی مجموعی ہولناکی کو دیکھا جائے تو منظر مزید دل دہلا دینے والا ہے۔قابض اسرائیل کے ان مسلسل حملوں میں شہداء کی تعداد 55297 تک جا پہنچی ہے جب کہ 128426 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔

وزارتِ صحت نے بتایا کہ اب بھی متعدد شہداء ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا سڑکوں پر دم توڑ چکے ہیں جن تک ایمبولینسیں یا امدادی کارکن نہیں پہنچ پا رہے۔ ملبے کے نیچے زندگی کی آخری سانسیں گننے والے ان زخمیوں کی کوئی فریاد سننے والا نہیں کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے امدادی اہلکاروں کی نقل و حرکت بھی تقریباً ناممکن بنادی ہے ۔

یہ سب کچھ عالمی برادری کی خاموشی کے سائے میں ہو رہا ہے جہاں ایک طرف امریکا کھلے عام قابض اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے وہیں دوسری جانب اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے صرف الفاظ کی مذمت پر اکتفا کر رہے ہیں۔

فلسطینی عوام کا لہو چیخ چیخ کر دنیا کو جگا رہا ہے مگر عالمی ضمیر شاید اب بھی خوابِ غفلت میں ہے۔ادھرحماس نے قابض اسرائیلی فوج پر ایک اور ہولناک قتلِ عام کا الزام عائد کیا ہے جس میں وسطی غزہ میں امریکی صہیونی چیک پوسٹ کے قریب خوراک کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے پندرہ سے زائد نہتے فلسطینی شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔

ہفتے کے روز جاری کردہ ایک دل دہلا دینے والے بیان میں حماس نے کہا کہ بھوکے پیاسے فلسطینی شہری جب امدادی سامان کی طرف لپکے تو ان پر براہ راست فائرنگ کر دی گئی۔

یہ انسان دشمن کارروائی قابض اسرائیل کے اس سفاک چہرے کو بے نقاب کرتی ہے جو بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرتا ہے اور امدادی مراکز کو اجتماعی قتل گاہوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بنجمن نیتن یاھو کی سربراہی میں قابض اسرائیل کی حکومت انسانی امداد کو ایک جنگی ہتھیار میں تبدیل کر چکی ہے اور خوراک، پانی اور دواؤں جیسے بنیادی انسانی وسائل کو موت، تذلیل اور اذیت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

حماس نے اس طرزِ عمل کو جدید تاریخ کی بدترین درندگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی توہین ہے۔حماس نے اس ظلم پر عالمی برادری کی خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ غزہ میں گزشتہ بیس ماہ سے جاری قتل و غارت پر مسلسل چپ سادھ لینا، دراصل ایک سنگین جرم میں شراکت داری کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ امدادی مراکز کے قریب عام شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانا اس مجرمانہ رویے کا تسلسل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔اپنے بیان کے اختتام پر حماس نے بین الاقوامی برادری، عرب ممالک اور اسلامی دنیا سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پرحرکت میں آئیں۔

ان قتل عام کے سلسلوں کو بند کروانے کے لیے عملی اقدامات کریں اور غزہ پر مسلط محاصرہ ختم کروانے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی امدادی ایجنسیوں کے طے کردہ راستوں سے انسانی امداد کی فوری ترسیل یقینی بنوائیں۔

دوسری جانب لندن سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ”ایمنسٹی انٹرنیشنل” نے کہا ہے کہ جنوبی غزہ کی بستی خزاعہ کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دینا قابض اسرائیل کی جانب سے جاری تباہی کے منظم منصوبے کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہے جو پورے غزہ کو ایک بنجر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کی خوفناک کوشش ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خلائی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر اور وہ ویڈیوز جن کی درستگی کی تصدیق ہو چکی ہے اس بات کا انکشاف کرتی ہیں کہ بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کے قابض صہیونی فوجیوں نے مئی 2025ء کے صرف دو ہفتوں کے اندر اندر خزاعہ کے باقی ماندہ آثار بھی زمین بوس کر دیے۔

تنظیم نے اپنے بیان میں دو ٹوک انداز میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے کی جانے والی جنگی جرائم کی دو واضح اقسام، یعنی بلا جواز تباہی اور اجتماعی سزا کی فوری اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا نیا ثبوت ہے جو صاف ظاہر کرتا ہے کہ قابض اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تحقیقاتی ماہرین نے واضح کیا کہ اس تحقیقی جائزے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ قابض صہیونی فوج منظم طور پر غزہ میں زندگی کو برقرار رکھنے والے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہی ہے۔

اس میں سب سے زیادہ زرخیز زرعی زمینیں بھی شامل ہیں جنہیں منظم طور پر تباہ کیا گیا ہے۔تنظیم نے کہا کہ یہ جرائم، قابض اسرائیل کی اس سازش کا حصہ ہیں جس کے ذریعے وہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کو ایسے حالات میں دھکیلنا چاہتا ہے جن کا مقصد ان کی مکمل یا جزوی جسمانی تباہی ہے۔

دریں اثناء فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں آئندہ ہفتے ہونے والا دو ریاستی حل سے متعلق بین الاقوامی اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ یہ اجلاس جلد از جلد منعقد کیا جائے گا۔

عرب ٹی وی کے مطابق میکرون نے ایک پریس کانفرنس میں کہا اگرچہ ہمیں یہ اجلاس بعض انتظامی اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ملتوی کرنا پڑا ہے مگر یہ جلد ہی منعقد ہو گا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس سے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے ہمارے عزم پر کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

فرانسیسی صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے پر قائم ہیں خواہ اسرائیل اس کی شدید مخالفت ہی کیوں نہ کرے۔میکرون نے کہا جو بھی حالات ہوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہوں۔

ان کے مطابق یہ ایک خود مختار فیصلہ ہے۔میکرون نے کہا کہ اس اعتراف کی بنیاد کچھ بنیادی شرائط پر ہے جن میں غزہ میں حماس کا غیر مسلح ہونا اور فلسطینی ریاست کا غیر مسلح ہونا شامل ہے۔

ان کے مطابق ہدف ایک ایسی غیر مسلح فلسطینی ریاست ہے جو اسرائیل کے وجود اور اس کے تحفظ کو تسلیم کرے اور جسے استحکام کے لیے ایک بین الاقوامی مشن کی حمایت حاصل ہو۔ انھوں نے مزید کہا یہ اسرائیل کے خطے میں انضمام کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔

فرانسیسی صدر نے یہ بھی کہا کہ آنے والے دنوں میں علاقائی رہنمائوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے تحت ایک نئی تاریخ طے کی جائے گی۔