فنڈز کی عدم فراہمی،پی پی کا وفاقی بجٹ کی حمایت نہ کرنے کا انتباہ

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف یا ایم کیو ایم کے کسی بھی دبائو یا سیاسی بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور عوامی مفادات کا دفاع اولین ترجیح رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے سندھ کا ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے کا بنانے جا رہے ہیں، اگر وفاق نے پورے پیسے دیے تو یہ اعدادوشمار زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، وفاق نے گزشتہ سال بھی مسلسل محاصل کی منتقلی کم کی ہے۔

صوبائی ترقیاتی بجٹ کا کل بجٹ ایک ہزار 18 ارب روپے ہے۔ 26-2025ء کے بجٹ کا حجم 3 ہزار 450 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال ہم ریکارڈ 1460 اسکیمیں مکمل کرنے جا رہے ہیں۔

ہفتہ کو چیف منسٹرہائوس میںکراچی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا2 ہزار 150 ارب روپے کے موجودہ مالی اخراجات ہیں، جاری اخراجات میں سب سے بڑا حصہ تنخواہوں اور پنشنز کا ہے، آئندہ مالی سال تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات ایک ہزار 100 ارب روپے ہوں گے۔

ہمارے تنخواہوں کے اخراجات ماہانہ 100 ارب روپے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ مشکلات کے باوجود گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی تنخواہ 12 فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، گریڈ 17 سے 22 کی تنخواہیں 10 فیصد بڑھیں گی، یہ سب غیرترقیاتی اخراجات ہیں، دوسرا سب سے بڑا بجٹ ہمارا تعلیم کا ہے۔

اس سال تعلیمی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ کیا ہے، اس کے بعد بڑا بجٹ صحت کے شعبے کو جاتا ہے، صحت کے بجٹ میں 11 فیصد ضافہ کیا گیا ہے۔ اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ نے صوبے کے لیے ایک پرعزم مالی اور ترقیاتی ایجنڈے کا اعلان کیا۔

ساتھ ہی سنگین مالی چیلنجز اور وفاقی کٹوتیوں پر بھی روشنی ڈالی۔مراد علی شاہ نے کانفرنس کا آغاز ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کی شدید مذمت سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس حملے کے خلاف اپنا احتجاج بجٹ اجلاس میں ہی ریکارڈ کرا چکے تھے اور فوری طور پر ایک اجلاس بلا کر اس جارحیت کے خلاف قرارداد بھی منظور کرائی۔

وزیراعلی نے اپوزیشن کے جانب سے قرارداد کی منظوری کے دوران پیدا کی گئی ہنگامہ آرائی پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کیوں کی، ساتھ ہی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف سخت مو قف کو بھی دہرایا۔

مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر مالی وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کی اور انکشاف کیا کہ بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک روز قبل سندھ حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ متوقع 105 ارب روپے روک لیے جائیں گے۔

سندھ کو گذشتہ سال سے اب تک قابل تقسیم محاصل سے 1,478.5 ارب روپے موصول ہوئے ہیں جبکہ 422.3 ارب روپے تاحال واجب الادا ہیں۔ وزیراعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ یہ رقم جون کے اختتام تک جاری کر دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت مالی نظم و ضبط کی شرائط کے باوجود سندھ حکومت رواں سال ترقیاتی منصوبوں کے لیے 590 ارب روپے مختص کرے گی۔

مجموعی بجٹ کا حجم 3.45 کھرب روپے رکھا گیا ہے جس میں 1 کھرب روپے ترقیاتی اور 2.15 کھرب روپے جاری اخراجات کے لیے مختص ہیں۔کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے 236 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔

دیہی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مراد علی شاہ نے 600 ارب روپے کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن منصوبے کا اعلان کیا جس سے 45 لاکھ دیہی افراد مستفید ہوں گے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ کئی ٹیکس ختم یا کم کر دیے گئے ہیں۔

تفریحی ٹیکس کا خاتمہ کیا گیا ہے، ریسٹورنٹ ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے۔ تھرڈ پارٹی گاڑی انشورنس پر اسٹامپ ڈیوٹی 50 روپے کر دی گئی ہے جبکہ انشورنس ٹیکس 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ٹیکس سے مستثنی اشیاء کی فہرست شائع کی جائے گی۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت زمین کے ریکارڈ کو بلاک چین کے ذریعے ڈیجیٹل بنا رہی ہے تاکہ آسان رسائی ممکن ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت میں اہم پیش رفت میں 34 ہزار نئی کاسٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں ہیڈماسٹرز کو انتظامی اخراجات کیلیے بجٹ میسر ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کے فور واٹر پروجیکٹ کی ساخت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کینجھر جھیل سے فراہم کرے جبکہ سندھ حکومت اس پانی کی تقسیم کی ذمہ دار ہے اور اس مقصد کے لیے ضروری فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔

فیڈر لائن کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ایک مہنگے پانچ ملین گیلن یومیہ صلاحیت کے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مراد علی شاہ نے اعتراف کیا کہ اگرچہ وفاقی فنڈز کی کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط چیلنجز پیدا کر رہی ہیں، سندھ حکومت ترقی، سماجی فلاح اور مالی نظم و ضبط پر قائم ہے۔

وزیراعلیٰ نے بتایا کہ گریڈ 1 سے 4 تک کی 20 سے 25 ہزار نوکریاں خالی ہیں، جنہیں جلد پر کیا جائے گا۔ گریڈ 5 سے 7 کی بھرتیاں آئی بی اے کے تحت ٹیسٹ کے ذریعے ہوں گی جبکہ گریڈ 16 کی اعلیٰ ملازمتوں کے لیے بھی تقرریوں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔

مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈبلیو ڈی اسکیمیں صوبوں کو منتقل ہوئیں تو سندھ کو صرف 18 منصوبے دیے گئے جو ناانصافی ہے۔ انہوں نے وفاقی بجٹ کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کی منصفانہ تقسیم اور تعلیمی اداروں کی فنڈنگ بحال نہ کی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی فنڈنگ میں 4 ارب سے کٹوتی کرکے 2 ارب روپے کر دیے گئے ہیں جس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔وزیراعلی نے سکھر-حیدرآباد موٹروے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے کے لیے وفاقی فنڈز 30 ارب روپے سے کم کرکے 15 ارب کر دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وفاق 25 ارب روپے برابر کا حصہ ڈالے تو سندھ بھی اتنی رقم دینے کو تیار ہے مگر وفاق نے یہ پیشکش رد کر دی۔ البتہ اسلامی ترقیاتی بینک تین حصوں کے لیے فنڈنگ پر آمادہ ہے جب کہ باقی حصوں کے لیے بین الاقوامی مالی معاونت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

مراد علی شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بڑے منصوبے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں شامل ہی نہیں کیے گئے اور سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو ناانصافی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ کراچی میں 150 بسوں کی آمد میں تاخیر وسائل کی کمی کے باعث ہوئی تاہم انفرااسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔

سیف سٹی منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل ستمبر یا اکتوبر 2026 تک متوقع ہے جو کراچی کے اہم علاقوں پر مشتمل ہوگا۔ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں اور کیمرے سیکیورٹی خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

دوسرے مرحلے کے لیے 2026 ء کے بجٹ میں فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔وزیراعلی نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بڑھے ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے وفاق کے مقابلے میں سندھ حکومت پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے چیف منسٹر آفس کے لیے ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کی خریداری پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہیلی کاپٹر 36 سال پرانا ہے جبکہ گاڑیاں کئی برسوں سے اپ ڈیٹ نہیں کی گئیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں غیر ضروری اخراجات روکنے کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔