تین سال پہلے کے 50ہزار آج کے 20ہزار کے برابر

اسلام آباد:پاکستان کی حالیہ معاشی پالیسیوں اور آئی ایم ایف پروگرام کے اثرات پر معروف ماہرِ معیشت ثاقب شیرانی نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں مالیاتی استحکام کے نام پر عوام پر بے مثال معاشی بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

مقامی انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے تجزیے میں شیرانی نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک جا پہنچی ہے، یعنی لگ بھگ ایک کروڑ 80 لاکھ افراد روزگار سے محروم ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 29 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان کے مطابق 2020ـ21 کے سرکاری اعداد و شمار میں یہ شرح صرف 6.3 فیصد تھی، جس سے موجودہ بحران کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔

عالمی بینک کے تازہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 45 فیصد آبادی روزانہ 4.2 امریکی ڈالر یا اس سے کم پر گزارا کرنے پر مجبور ہے، جبکہ اگر غربت کا پیمانہ 3.65 ڈالر یومیہ رکھا جائے تو ملک کے لگ بھگ 10 کروڑ 70 لاکھ افراد انتہائی غربت کا شکار قرار دیے گئے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں غربت میں سب سے بڑا اور تیز رفتار اضافہ ہے۔تحریر کے مطابق مارچ 2022 سے اب تک پاکستانی شہری کی حقیقی قوتِ خرید میں 58 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے، یعنی جس فرد کی آمدنی دو سال پہلے 50,000 روپے ماہانہ تھی، اب اس کی قوت خرید عملاً صرف 20,833 روپے کے برابر رہ گئی ہے۔

جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو بھی تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ تین سالہ اوسط صرف 1.7 فیصد رہی، جو کہ 1952 کے بعد کی کم ترین سطح ہے، اور آبادی کے اضافے سے بھی کم ہے، جس کے باعث فی کس آمدن میں حقیقی کمی واقع ہوئی ہے۔ زرعی شعبہ بحران کی زد میں ہے، بڑی فصلوں کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے، جبکہ صنعتی شعبے میں 10 فیصد سے زائد سکڑاؤ رپورٹ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں میں کسانوں کی آمدن میں کمی کے باعث غربت کی شرح 50 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔

کئی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور متوسط طبقہ شدید معاشی دباؤ میں ہے۔شیرانی کے مطابق حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے معاشی استحکام کے دعوے تو کر رہے ہیں، لیکن عوامی سطح پر صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج پاکستان میں ہر دوسرا شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور ہر چوتھا فرد بے روزگار ہے۔ یہ وہ استحکام نہیں جس کی بنیاد ترقی پر ہو — بلکہ یہ معاشی تباہی ہے جسے “استحکام” کا نام دے کر عوام کی قربانیوں کو چھپایا جا رہا ہے۔