غزہ/تل ابیب/لندن : اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے دوران فائرنگ کردی۔اسرائیل کے غزہ میں ڈرون حملے میں 2فلسطینی شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران اسرائیلی جارحیت سے 50 فلسطینی شہید اور 400 زخمی ہوگئے۔
غزہ میں شہدا کی تعداد 54ہزار 930 ہوگئی، زخمی فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ 26ہزار 600 سے تجاوز کر گئی۔
اسرائیلی فضائیہ نے جبالیہ، رفح سمیت مختلف علاقوں میں کیمپوں اور رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا، صہیونی فورسز نے غزہ کی زمینی، سمندری اور فضائی ناکہ بندی برقرار رکھی، امدادی سامان کی قلت کے باعث ہزاروں فلسطینی قحط کا شکار ہوگئے۔
طبی ذرائع کے مطابق خان یونس کے جنوبی علاقے میں قابض اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر معصوم بچہ، امیر ابراہیم ابو شلوف شہید ہو گیا۔ اس کی ننھی لاش فلسطینی قوم کے زخموں پر ایک اور کاری وار بن گئی۔
ہسپتال القدس جو خود بھی بار بار قابض اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنتا رہا ہے نے فجر سے لے کر اب تک 12 شہداء اور 124 زخمیوں کو وصول کیا، جنہیں نتساریم کے مقام پر امداد کے انتظار میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
نصیرات میں واقع ہسپتال العودة نے اعلان کیا ہے کہ انہیں بھی 5 شہداء اور 100 سے زائد زخمی موصول ہوئے ہیں۔ادھر خان یونس کے مغربی علاقے المواصی میں قابض اسرائیلی فوج نے ایک خیمے کو نشانہ بنایا، جو بے گھر فلسطینیوں کی عارضی پناہ گاہ تھی۔
اس حملے میں فداء ابراہیم زعرب شہید ہوئیں جب کہ دیگر کئی افراد زخمی ہوئے۔وادی غزہ میں امریکا کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کے منتظر شہریوں پر بھی حملہ کیا گیا جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔
قابض اسرائیل کے طیاروں نے شمال مشرقی غزہ میں واقع التفاح محلے پر بھی دو فضائی حملے کیے جن میں کئی افراد زخمی ہوئے۔خان یونس کے ایک گھر پر کی گئی بمباری نے مزید شہریوں کو زندگی سے محروم کر دیا جب کہ قابض اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے جنوب مغربی خان یونس میں اندھا دھند فائرنگ کی۔
خان یونس کے ایک کیمپ میں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے پر حملے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد شہید ہو گئے. شہداء کی شناخت خدیجہ رائد اسماعیل ابودیہ، سامیہ علی رائد اسماعیل ابو دیہ، علی رائد اسماعیل ابو دیہ اور اسلام حسن حسین ابو دیہ کے ناموں سے کی گئی ہے۔
اسی علاقے کے ایک اور خیمے پر قابض اسرائیل نے حملہ کیا جس میں مزید تین فلسطینی شہید ہوئے جن کی شناخت محمد نعیم کامل منصور، علی محمد نعیم منصور اور لمیہ غالب کامل منصور کے ناموں سے کی گئی ہے۔
قابض اسرائیل کی طرف سے فلسطینی قوم کے خلاف جاری انسانیت سوز جنگ میں حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والے صحافی بھی محفوظ نہیں۔ منگل کو ایک اور فلسطینی صحافی مؤمن محمد ابو العوف کو غزہ کی مشرقی حدود میں ایک انسانی مشن کی انجام دہی کے دوران قابض اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا۔
ان کے ساتھ تین امدادی کارکن بھی شہید ہوئے۔مؤمن ابو العوف ایک بے باک اور باخبر فوٹو جرنلسٹ تھے جو کئی مقامی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ تھے۔ ان کی شہادت کے بعد رواں نسل کشی کی جنگ کے دوران شہید ہونے والے فلسطینی صحافیوں کی تعداد 227 تک جا پہنچی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ تک امداد پہنچانے کی کوشش کرنے والی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کو ملک بدر کردیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج گریٹا تھنبرگ سمیت دیگر 12 افراد کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے تل ابیب ائیر پورٹ لے گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق گریٹا تھنبرگ اور دیگر 3 کارکنوں نے رضاکارانہ طور پر اسرائیل چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب کہ دیگر 8 ارکان نے ملک بدری کا حکم چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ گریٹا تھنبرگ فرانس کے راستے سوئیڈن جانے والی پرواز میں ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ کشتی پر سوار پانچ فرانسیسی کارکنوں کو اسرائیلی جج کے سامنے پیش ہونا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے وکیل کی چھ فرانسیسی شہریوں سے ملاقات ہوئی ہے جنہیں گزشتہ رات اسرائیلی حکام نے حراست میں لیا تھا۔
ان میں سے ایک نے رضاکارانہ طور پر واپس جانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے اور انہیں آج پہنچ جانا چاہیے جبکہ دیگر کو جبری جلاوطنی کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ادھرحماس نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر قابض اسرائیل کی جانب سے چلائی جانے والی اس ظالمانہ امدادی تقسیم کی کارروائی کو روکیں جو انسانی معیار سے یکسر متصادم اور جعلی ہے۔
حماس نے اپنے جاری کردہ بیان میں اس سفاکانہ قتل عام کو”ایک بھیانک جنگی جرم” قرار دیتے ہوئے کہاکہ قابض اسرائیل کی یہ درندگی فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی قتل اور منظم قحط کی پالیسی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے جو عالمی اداروں اور تمام انسانی حقوق کے معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیاکہ قابض فوج نے ایک جعلی انسانی سرپرستی کے پردے تلے جو اس جان لیوا نظام کو نافذ کیا ہے وہ دراصل موت کے جال میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دریں اثناء انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے انتباہ جاری کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کا طبی نظام بہت زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔
آئی سی آر سی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے دوران اسپتالوں کو فوری تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔بیان میں کہا گیا کہ طبی نظام پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی جانب سے امدادی مراکز پر حملوں میں فلسطینی شہادتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
بیان کے مطابق حالیہ دنوں میں مریضوں کی ایک سے دوسرے طبی مرکز میں منتقلی بھی چیلنج بن گئی ہے اور متعدد کیسز میں مریض خصوصی نگہداشت سے محروم رہتے ہیں۔
علاوہ ازیںغزہ کے عوام نے ایک اور تاریخ رقم کردی سینکڑوں مرد، خواتین، بزرگ، بچے اور نوجوان قابض اسرائیل کے سمندری محاصرے کو چیلنج کرنے والے جہاز ماڈلین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے غزہ بندرگاہ کے قریب جمع ہو گئے۔
یہ پْرجوش اجتماع دنیا کے ان بہادر انسانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کیا گیا جنہوں نے قابض دشمن کے ظلم کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔اس عوامی اجتماع میں فلسطینی پرچموں کی بہار تھی اور ہاتھوں میں ایسی تحریریں تھیں جن پر شکریے، محبت اور عزم کے پیغامات درج تھے۔
ادھرقابض اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے پیر کی شب اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقبوضہ شہر اللد میں واقع بن گوریون ایئرپورٹ کا فضائی نظام اس وقت معطل کر دیا گیا جب یمن کی جانب سے ایک میزائل فائر کیے جانے کا انکشاف ہوا۔
عبرانی ٹی وی چینل 14 کی رپورٹ کے مطابق یمن سے ایک میزائل قابض اسرائیل کی جانب فائر کیا گیا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دورانِ پرواز ہی کہیں گر گیا تاہم اس واقعے کے بعد بن گوریون ایئرپورٹ کا فضائی علاقہ فوری طور پر بند کر دیا گیا۔
قابض اسرائیل کی فوج نے ایک ظالمانہ اور درندگی سے بھرپور منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت شمال مغربی کنارے کے کیمپ جنین میں لگ بھگ ایک سو مکانات کو مسمار کیا جائے گا۔
مقامی ذرائع کے مطابق قابض فوج نے کیمپ کے مختلف حصوں میں ان مکانات پر نشان لگا رکھے ہیں اور 72 گھنٹوں کے اندر ان کی مکمل تباہی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس منصوبے سے پہلے بھی قابض ریاست نے مارچ سنہ2025ء میں جنین کیمپ میں درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 66 سے زائد گھروں کو منہدم کیا تھا۔
الجزیرہ چینل کی رپورٹ کے مطابق قابض ریاست کی مسلسل جارحیت کے پچھلے پانچ ماہ میں کیمپ میں تقریباً 600 گھروں اور دیگر عمارتوں کو جزوی یا مکمل طور پر تباہ کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب برطانوی دارالحکومت لندن میں برطانوی فارن آفس کے سامنے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ فوری طور پر اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کرے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ فوری طور غزہ میں خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے برطانیہ اقدامات کرے جبکہ اطالوی دارالحکومت روم اور شہر میلان میں قابض اسرائیل کی فریڈم فلوٹیلا کی امدادی کشتی ”میدڈلین ”کی غیر قانونی بندرگاہ پر جبری قبضے کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
روم کے تاریخی اسکوائر”البانتھیون” میں سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے جنہوں نے فلسطینی پرچم بلند کیے اور گرفتاریوں کے خلاف آواز بلند کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ قابض اسرائیل فوری طور پر ان 12 انسان دوست کارکنوں کو رہا کرے جو کشتی پر سوار تھے اور جنہیں ظالمانہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔
احتجاجی جلوسوں میں بینر اٹھائے گئے جن پر لکھا تھا ”ظلم بند کرو”، ”اسرائیل کو اسلحہ بھیجنا بند کرو”، ”آزاد بحری بیڑے کو نقصان نہ پہنچاو” اور ”اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے”۔
مظاہرین نے قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور فلسطین کی آزادی کے لیے نعرے لگائے۔
میلان میں بھی دو جگہوں پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، ایک ”میرکائونٹی” اسکوائر میں اور دوسرا صوبائی عمارت کے سامنے، جہاں تقریباً پانچ سو مظاہرین نے قابض ریاست کے ظلم و ستم اور غزہ کے محاصرے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔