چوتھی عیدپر بھی فلسطینیوں کو امن کی تلاش،بمباری میں43شہید

غزہ/لندن /نیویارک/واشنگٹن/تل ابیب:اسرائیلی جارحیت جاری رہنے کے سبب غزہ میں عید الاضحی پر روایتی مذہبی جوش و خروش اور خوشیاں معدوم ہوچکی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی دہشت گردی مسلط ہونے کے بعد چوتھی عید کی آمد کے موقع پر بھی قتل وغارت، بربادی، فاقہ کشی اور رحم مانگنے کا سلسلہ جاری ہے۔

غزہ پر مسلط نسل کشی سے عبارت جنگ کے آغاز سے لے کر اہالیان غزہ ان دنوں مشکل ترین دور کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ پر بلا توقف اسرائیلی گولہباری، تباہی اور قتل وغارت میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

غزہ کی پٹی میں شمال سے جنوب تک بسنے والے حقیقی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہیچ قسم کی اپنی جاری جنگ کے دوران قحط کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اہالیان غزہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ عید قربان سے پہلے فائر بندی معاہدہ طے پا جائے تاکہ ان پر دن رات برسنے والی موت کی بارش تھم سکے اور سرحدی راہداریاں کھل سکیں جس سے غزہ میں امدادی سامان کی آمد شروع ہو بے رحمانہ بھوک اور فاقوں کا خاتمہ ہو سکے۔

دوسری جانب اسرائیل نے غزہ شہر کے الاحلی ہسپتال جسے بیپٹسٹ ہسپتال بھی کہا جاتا ہے پر حملے میں چار صحافیوں کو قتل کر دیا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں آج کم از کم 43 افراد شہید ہو گئے ہیں۔

ادھراقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد حاصل کرنے کی کوشش میں فلسطینیوں کو مارے جانے کے خوفناک مناظر جان بوجھ کر کیے گئے فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔

غزہ کی پٹی میں انہیں زندہ رہنے کے وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے۔ پٹی کا اسرائیل نے محاصرہ کیا ہوا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق فلیچر نے ایک بیان میں کہا کہ دنیا روز بہ روز غزہ میں فلسطینیوں کے خوفناک مناظر دیکھ رہی ہے جنہیں اس وقت گولی ماری جا رہی ہے ، زخمی کیا جا رہا ہے یا قتل کیا جا رہا ہے جب وہ صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ منظم طریقے سے 20 لاکھ افراد کو ان بنیادی ضروریات سے محروم کر دیاگیا ہے جو انہیں زندہ رہنے کے لیے درکار ہیں۔فلیچر نے بین الاقوامی تنظیم کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی امدادی مراکز کے قریب ہونے والے واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرانے کی اپیل دہرائی۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ الگ تھلگ واقعات نہیں ہیں اور مجرموں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ کسی کو بھی اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیے۔ فلیچر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو محصور پٹی میں اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت دی جانی چاہیے ۔

برطانوی حکومت نے بھی غزہ کی پٹی میں امداد تقسیم کرنے والے مقامات کے قریب اس ہفتے ہونے والے مہلک واقعات کے سلسلے میں فوری اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔مشرق وسطی ٰکے امور کے وزیر ہیمیش فالکنر نے کہا کہ خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں فلسطینیوں کی ہلاکت انتہائی پریشان کن ہے۔

انہوں نے اسرائیلی امداد تقسیم کرنے کے نئے اقدامات کو بنیادی انسانی اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والا قرار دیاجبکہ فلسطین کے حامی مظاہرین نے برطانوی پارلیمنٹ کے گرد سرخ دائرہ بنا کر احتجاج کیا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سرخ لباس میں ملبوس ہزاروں افراد نے دریائے ٹیمز کے دونوں اطراف، ویسٹ منسٹر اور لیمبتھ پلوں کے اوپر قطار میں کھڑے ہو کر مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے غزہ میں فوری طور پر جنگ بند کرانے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔دریں اثناء امریکا کی حمایت یافتہ تنظیم غزہ ہیومینیٹرین فائونڈیشن نے اپنی امدادی کارروائیوں کے دوران حالیہ دنوں میں درجنوں افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد اپنے مراکز کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔

اس سے پہلے ادارے نے یہ مراکز بند کر دیے تھے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے ان مراکز کو جانے والے راستوں کو جنگی علاقے قرار دیا ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق ادارے نے فیس بک صفحے پر شائع ہونے والے ایک بیان میںادارے نے مزید کہا کہ وہ خوراک کے ڈبوں کی تقسیم کو حتی الامکان محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، اگرچہ حالات سخت ہیں۔

ادارے نے اپنی جانب آنے والے تمام افراد پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے متعین کردہ راستوں پر ہی چلیں تاکہ ان کا گزر محفوظ رہے۔علاوہ ازیں اسرائیل نے اپنے فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم کے علاوہ امریکاسے بھی دفاعی نظام منگوایا ہے۔

اس وقت اسرائیل میں تین طرح کے دفاعی نظام بروئے کار ہیں جبکہ حوثیوں کے میزائل حملے پھر بھی تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ جاتے ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے عوام کو یہ خبر سنائی ہے کہ اسرائیلی اسلحے کی مانگ میں کمی نہیں آئی ہے۔

وزیر دفاع کاٹز کے مطابق 2024 ء کے دوران اسرائیل نے پہلے برسوں کے مقابلے میں دوسرے ملکوں کو زیادہ اسلحہ فروخت کیا ہے۔ یہ اسلحہ 14.7 ارب ڈالر کا فروخت کیا گیا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پرانسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے عوامی حلقوں میں سخت تنقید کی جاتی رہی۔ کاٹز کے مطابق اسرائیل نے مسلسل چوتھے سال اسلحہ فروخت میں ہر سال اضافہ دیکھا ہے ۔

امریکا نے بدھ کے روز غزہ میں جنگ بندی اور محصور علاقے میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کی اپیل پر مبنی قرارداد کو ویٹو کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے غصے کو بھڑکا دیا۔

امریکا نے اپنے اقدام کو اس دلیل کے ساتھ درست قرار دیا کہ یہ متن اس تنازع کے حل کے لیے جاری سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے سفیروں نے ووٹنگ کے نتائج پر”افسوس” کا اظہار کیا۔

چینی سفیر فو کونگ نے براہ راست امریکا کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسے”سیاسی مفادات سے دست بردار ہو کر منصفانہ اور ذمہ دارانہ موقف اختیار کرنے”کی دعوت دی۔

الجزائر کے سفیر عمار بن جامع نے کہا کہ”خاموشی نہ مردوں کا دفاع کرتی ہے، نہ مرتے ہوں کا ہاتھ تھامتی ہے، اور نہ ہی ظلم کے نتائج کا سامنا کرتی ہے”۔پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے امریکی ویٹو پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غزہ میں فلسطینیوں کی ”نسل کشی کی کھلی اجازت” اور”سلامتی کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ” قرار دیا۔

سلووینیا کے سفیر سموئیل زبوگار نے کہا کہ ”جب انسانیت کو غزہ میں براہ راست آزمائش کا سامنا ہے، تو یہ قرارداد ہمارے مشترکہ احساسِ ذمہ داری سے جنم لے چکی ہے، یہ ذمہ داری ہم غزہ کے عام شہریوں، اسیر اسرائیلیوں، اور تاریخ کے سامنے ادا کرتے ہیں۔

وہ پکار اٹھے بس! بس … بہت ہو گیا”امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں بطور صدر واپسی کے بعد یہ پہلا ویٹو ہے جو واشنگٹن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں استعمال کیا ہے۔

ووٹنگ سے قبل امریکی مندوب ڈورتھی شیا نے کہا کہ”یہ قرارداد ایسی جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گی جو زمینی حقائق کی عکاسی کرتی ہو اور حماس کی حوصلہ افزائی کرتی ہو۔ نیز یہ قرارداد اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک جھوٹی مساوات قائم کرتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ متن نہ صرف اس وجہ سے ناقابل قبول ہے کہ اس میں کیا درج ہے، بلکہ اس وجہ سے بھی کہ اس میں کیا شامل نہیں کیا گیا۔انھوں نے اسرائیل کے ”اپنے دفاع کے حق” پر زور دیا۔

یہ سلامتی کونسل، جس میں پندرہ رکن ممالک شامل ہیں، کی جانب سے غزہ کی جنگ پر پہلا ووٹ تھا، جو نومبر کے بعد ہوا۔ اس حالیہ قرارداد کو سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان نے پیش کیا جس کے حق میں 14 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں صرف امریکا نے ووٹ دیا۔

قرارداد میں”فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی”اور قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ساتھ ہی ”غزہ میں تباہ کن انسانی صورت حال”پر روشنی ڈالی گئی اور ”غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ، فوری اور غیر مشروط رسائی”پر زور دیا گیا تاکہ اقوام متحدہ سمیت دیگر فریقین کی جانب سے امداد محفوظ اور موثر طریقے سے پہنچائی جا سکے۔

اسرائیلی فوج نے دعوی ٰکیا ہے کہ خان یونس میں ملٹری آپریشن کے دوران دو یرغمالیوں کی لاشیں ملی ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ خفیہ ملٹری آپریشن اسرائیلی فوج اور شِن بیت سیکیورٹی ایجنسی نے غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر خان یونس میں کیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ خفیہ ملٹری کارروائی حماس کے گرفتار جنگجو سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی۔ آپریشن کے دوران حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے امریکی نژاد اسرائیلی جوڑے گادی ہگائی اور جدیہ وائن اسٹین کی لاشیں ملیں۔

یہ دونوں امریکی شہریت رکھنے والے افراد”مجاہدین بریگیڈز” کے قبضے میں تھے جو نسبتاً چھوٹا عسکری گروہ جو حماس کے ساتھ منسلک ہے۔

اس حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور شاباک (سکیورٹی ایجنسی)نے غزہ میں ایک خصوصی کارروائی کے دوران دو اسرائیلیوں کی لاشیں بازیاب کر لی ہیں، جو اکتوبر 2023 ء سے حماس کی تحویل میں تھیں۔

اپنے بیان میں نیتن یاھو نے بتایا کہ جن افراد کی لاشیں واپس لائی گئی ہیں ان کے نام جودی وینشٹائن حاجی اورگیڈی حاجی ہیں جو نیر عوز کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔

انہوں نے واضح کیا کہ دونوں افراد 7 اکتوبر 2023 ء کو قتل کر دیے گئے تھے اور ان کی لاشیں بعد ازاں غزہ منتقل کر دی گئی تھیں۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہہماری حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک تمام قیدی، خواہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں، وطن واپس نہیں آ جاتے۔

ادھراسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاھو ایک لیک ہونے والی آڈیو کے بعد شدید سیاسی دبائو کا شکار ہو گئے ہیں جس میں وہ ایک بااثر حریدی(یہودی مذہبی طبقہ)رہنما سے یہ وعدہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ حریدی یہودیوں کو لازمی فوجی سروس سے چھوٹ دلوانے کے لیے قانون سازی کریں گے۔

اس آڈیو میں نیتن یاھو یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے سابق وزیر دفاع یوآف گلینٹ اور آرمی چیف ہرزی ہلیوی کو اس لیے عہدوں سے ہٹایا کیونکہ وہ اس قانون کے مخالف تھے۔

یہ آڈیو اسرائیل کے نجی ٹی وی چینل “چینل 13” نے نشر کی، جس کے مطابق مارچ میں نیتن یاھو اور لیتوانی حریدی دھڑے کے رہنما حاخام موشیہ ہلیل ہیرش کے درمیان ایک ملاقات ہوئی تھی۔