بڑی عید کی خوشیوں سے محروم اہل غزہ!

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ پر مسلط اسرائیلی جارحیت کے بعد چوتھی بار عید آرہی ہے۔ سابقہ تینوں عیدوں کے مواقع پر ہم نے غزہ کے بچوں کے لیے نئے کپڑوں کے بازار سجائے تھے لیکن اس بار مقامی ساتھیوں سے یہی فرمائش کی تو ان کا کہنا تھا کہ اب یہاں کے بچوں کو بھی نئے کپڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
اس وقت بس ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح روٹی کا نوالہ مل جائے۔ اس لیے سارا فوکس اب آٹے کے حصول پر ہے۔ لہٰذا ہم بھی رات دن اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر آٹا اب غزہ میں جنسِ نایاب بن چکا ہے۔ اب اہل غزہ امید بھی کھو رہے ہیں۔ انہیں کسی تہوار کی خوشی ہے اور نا ہی خبر۔ وہ خون کے ایک دلدل میں پھنس گئے ہیں جہاں ہر سمت آگ ہے۔ موت ہے اور بے بسی ہے۔ اس بھیانک منظر میں صرف بارود کے دھماکوں، بچوں کی چیخوں، مرتے لوگوں کی سسکیوں اور انسانی لاشوں کو بھنبھوڑتے ہوئے آوارہ کتوں کی خوفناک آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ اس بار ایسے ہی خوفناک ماحول میں عیدالاضحی کی آمد آمد ہے۔ اسلام میں ذوالحجہ کے پہلے عشرے کو انتہائی فضیلت حاصل ہے، ان ایام کو عید جیسی خوشیوں کا پر تو سمجھا جاتا ہے، جو عید قربان کے دن اپنے عروج کو جا پہنچتی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر مسلط کی جانے والی تباہ کن جنگ سے پہلے یہاں بھی ایسے ہی عید منائی جاتی تھی، لیکن گزشتہ دو برسوں سے اہالیانِ غزہ ان خوشیوں سے محروم چلے آ رہے ہیں۔
عالمی مرکز فلکیات کے اعلان کے مطابق غزہ میں ذی الحجہ کا آغاز 28 مئی بروز بدھ کو ہوا۔ اس اعلان کی روشنی میں متعدد اِسلامی ملکوں میں چھ جون بروز جمعہ عید قربان کا پہلا دن قرار پایا۔ فریضہ قربانی کی ادائی کے سلسلے میں غزہ میں کی جانے والی غیرمعمولی تیاریاں اپنی مثال آپ ہوا کرتی تھیں۔ طویل المدت محاصرے اور تنگ دستی کے باوجود اہالیانِ غزہ قربانی کا اہتمام کرنے میں غیرمعمولی اشتیاق کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں۔ جنگ چھڑنے سے پہلے وزارت زراعت کے جولائی 2023ء میں جاری کردہ اعداد وشمار میں بتایا گیا تھا کہ غزہ کے 28 فیصد باسیوں نے سال 2023ء میں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا فریضہ انجام دیا۔ قربانی کرنے والے ایک لاکھ تیس ہزار خاندانوں میں سے 17 ہزار نے بڑے جانور جبکہ 24,000 نے چھوٹے جانوروں کی قربانی پیش کی۔
سنگی ساتھیوں کی رحلت
ابومحمد بتا رہے تھے : ہم سات دوست ہر سال چھ سو کلوگرام وزن کے درآمد کردہ بچھڑے کی مل کر قربانی کیا کرتے تھے۔ ہم آج نہ صرف قربانی کے اپنے جانوروں سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ قربانی میں اہتمام کے ساتھ حصہ ڈالنے والے ہمارے چار دوست غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے مختلف مراحل میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ابو محمد نے بتایا :ذی الحجہ کے اوائل عشرہ ایام بلکہ اس سے بھی پہلے عید کی بھرپور خوشیوں سے عبارت ہوتے تھے۔ اپنے بچوں کے ہمراہ ہم قربانی کے لئے ایک اچھا جانور تلاش کرنے مویشی منڈی جایا کرتے تھے، جہاں جانوروں کے باڑوں سے لیکر ہماری گاڑیوں کے ریکارڈرز پر تکبیر وتہلیل کی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔ ابومحمد سمجھتے ہیں کہ ہمارے عید منانے کے دن اب لد چکے۔ پرانے سنگی ساتھی نہ رہے، جبکہ خوشیاں دلوں اور گھر سے روٹھ چکی ہیں اور تو اور غزہ میں اب قربانی کا بھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے استفسار کیا :ایسے میں غزہ میں کوئی کیونکر خوشیوں کی بات کر سکتا ہے؟ ہماری خوشیاں تو غزہ میں جاری فاقوں اور نسل کشی کے خاتمے پر ہی لوٹ سکیں گی۔‘
عید کہاں منائیں؟
نسل کشی کے آغاز سے ہی عید نے غزہ سے منہ موڑ لیا تھا۔ آج غزہ کی پٹی میں چوتھی عید کی آمد کے موقع پر قتل و غارت، بربادی، فاقہ کشی اور رحم مانگنے کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر یہ کیسی عید ہے جس کا سامنا اہالیانِ غزہ کر رہے ہیں۔ آبائی گھر پر اسرائیلی بمباری میں دور نزدیک کے کئی رشتہ داروں کو موت کی وادی میں جاتا دیکھنے والے ابو کمال کہتے ہیں: ”کل میرے جوان بیٹے نے اپنے فون پر عید کی تکبیرات چلائیں تو میرا دل ملے جلے جذبات سے مغلوب ہوگیا۔ ایک چھوٹے بچے کی طرح پہلے میں ہنس دیا اور پھر بے اختیار رونے لگا۔ ہمارا خاندان اور پیارے اس دنیا سے جا چکے۔ موت نے ہمیں چہار سو گھیر رکھا ہے۔ ہمارے اور ہمارے بچوں کے پیٹ میں بھوک کے باعث اٹھنے والی درد کی ٹیسیوں سے جان ہمارے لبوں پر ہے۔‘ ابوکمال کے بہ قول عید کا موقع غزہ میں بھی آتا ہے، لیکن یہاں بسنے والوں کے پاس اسے منانے کا کوئی یارا نہیں۔ دن رات ہونے والی اسرائیلی بمباری سے غزہ کی سرزمین لرزاں رہتی ہے، جہاں کسی کی جان محفوظ نہیں، ایسی جگہوں پر عید منانے کی بات فلسطینیوں کے زخموں نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ابوکمال کہتے ہیں: میں اجر و ثواب کی نیت سے (ذی الحجہ) کے پورے نو روزے رکھتا تھا۔ طویل عرصے سے مسلط قحط کے باعث ہم تقریباً روزے ہی کی حالت میں ہیں، تاہم میں مشکلات سے خلاصی کی دعا کے ساتھ روزے کی نیت کروں گا تاکہ رب تعالیٰ ہماری مشکلات آسان کرے، کیونکہ ہماری ہمت اب جواب دیتی جارہی ہے۔
قحط اور قتل
غزہ پر مسلط نسل کشی سے عبارت جنگ کے آغاز سے لے کر آج تک اہالیانِ غزہ مشکل ترین دور کا سامنا کررہے ہیں۔ غزہ پر بلاتوقف اسرائیلی گولا باری، تباہی اور قتل وغارت میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں شمال سے جنوب تک بسنے والے حقیقی قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہیچ قسم کی اپنی جاری جنگ کے دوران قحط کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ فلسطینی پناہ گرینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ورکس اینڈ ریلیف ایجنسی (انروا) نے غزہ میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بے گھر ہونے والے ایک لاکھ کے قریب افراد انروا کے زیر انتظام پناہ کے مراکز میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ان افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مشیر برائے میڈیا عدنان ابوحسنہ کے اخباری بیان کے مطابق غزہ کی پٹی میں بسنے والے 80 فیصد افراد کو بے دخلی کے احکامات کا سامنا ہے جبکہ غزہ کی 92 فیصد عمارتیں بشمول، اسکول، جامعات، بنیادی ڈھانچہ نکاسی اور فراہمی آب کے مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی رصدگاہ یورو میڈیٹرین کے مطابق اس سال کے آغاز سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے متعلق 35 مرتبہ جبری بے دخلی کے احکامات جاری کئے۔ یہ احکامات اسرائیل کی اس منظم پالیسی کا حصہ ہیں جنہیں بروئے کار لا کر فلسطینیوں پر در بدری اور بھوک مسلط کی جاتی ہے۔ رصدگاہ نے یہ بات زور دے کر کہی: اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والے اجتماعی قتل، جبری فاقہ کشی، وسیع تباہی وبربادی الل ٹپ اقدامات نہیں بلکہ درحقیقت نسل کشی کے جرم کے ارتکاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے ایک منظم صہیونی حربہ ہے۔
اہالیانِ غزہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ عید قربان سے پہلے فائربندی معاہدے طے پا جائے تاکہ ان پر دن رات برسنے والی موت کی بارش تھم سکے اور سرحدی راہداریاں کھل سکیں، جس سے غزہ میں امدادی سامان کی آمد شروع ہو تاکہ بے رحمانہ بھوک اور فاقوں کا خاتمہ ہوسکے۔ تاہم اب تک یہ اُمید بر آنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔