اِمداد کی تقسیم کے مراکز یا موت کی سرنگیں؟

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی تین ماہ سے مکمل بندش کے بعد گزشتہ ہفتے امداد کی تقسیم کی اجازت دی گئی کے لیکن اب تک اس امداد کے حصول کے لئے آنے والے 90 سے زائد فلسطینی متاثرین صہیونی فورسز کی بمباری اور فائرنگ کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ اس وقت یہ عالمی میڈیا کا اہم موضوع بن چکاہے جس پر عالمی اخبارات اور میڈیا کے بڑے اداروں نے لکھنا اور بولنا شروع کردیا ہے۔
فرانسیسی جریدے لیبراسیون نے غزہ میں اسرائیل کے قائم کردہ امدادی تقسیم کر مراکز کو ’ موت کی سرنگوں‘ کا نام دیا ہے۔ فرانسیسی جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ موت کی سرنگیں بن جانے والے امداد کی تقسیم کے مقامات پر عینی شاہدین سے لیے جانے والے بیانات مکمل طور پر امداد کی تقسیم کرنے والے اداروں اور اسرائیلی فورسز کے اہلکاروں کے بیانات سے متصادم ہیں۔ اسرائیلی جریدے یدیعوت احرونوت نے اس موضوع پر لکھا ہے کہ اسرائیل نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے جنگ کے جواز کی عالمی حمایت کھودی ہے۔ عبرانی جریدے نے لکھا ہے کہ امداد کے حصول کے لئے آنے والے افراد کے متعدد بار قتل کے واقعات اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر ایک دلیل بن رہے ہیں جس کا جواب اسرائیل کو اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی فورمز پر دینا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل پر تجارتی پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں اور اسرائیل کے لیے مزید پریشانیون کا سبب بنے گا۔

بھوک کے ستائے فلسطینیوں پر گولیوں کی بارش سے عالمی میڈیا بھی پھٹ پڑا

عبرانی جریدے نے لکھا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے عالمی حمایت کا فایدہ اٹھانے کے بجائے معاملے کو گھمبیر شکل دے کر اسے اسرائیل کے خلاف بطور ثبوت بنا دیا ہے جس کے باعث اب اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر حالات پیدا ہورہے ہیں۔ اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ نے بھی اسرائیلی کردار پر تنقید کی ہے۔ غزہ کے حکومتی اعلامی ادارے کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 27 مئی سے امداد لینے والے افراد پر اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے مارے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد اب تک 52 ہوگئی ہے جبکہ 340 افراد زخمی ہیں۔ اسرائیل نے دو مارچ سے غزہ میں ہر قسم کی امداد کی رسائی کے راستے بند کر رکھے ہوئے تھے۔ 83 روز تک غزہ کے اس ظالمانہ محاصرے پر عالمی برادری خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ 93 روز کے بعد گزشتہ منگل کو غزہ میں امداد کی تقسیم کی اجازت دی گئی، تاہم اسرائیل نے اونروا سمیت کسی ادارے کو امداد کی تقسیم کی اجازت نہیں دی۔
ستائیس مئی سے امداد کی تقسیم کے ساتھ ہی صہیونی فورسز نے متاثرین کے قتل کا منظم سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں اب تک 52 افراد جان کی بازی ہارگئے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے جس پر اسلامی ممالک کی جانب سے بھی خاموشی دیکھی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد بچے شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے باعث غزہ کی پٹی میں ہر 20 منٹ میں ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔خیال رہے کہ 22 مئی کو اسرائیلی فوج کے سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائرگولن غزہ میں نہتے شہریوں اور بچوں کے قتل وعام پر پھٹ پڑے تھے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائرگولن نے حال ہی میں کی گئی پریس کانفرنس میں اسرائیلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اسرائیل بچوں کو شوقیہ قتل کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10 ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کردینے جیسے اقدامات اسرائیل کو دنیا کی نظر میں عالمی سطح پر ایک الگ تھلگ ریاست بناسکتے ہیں۔
حقیقت ہے کہ اسرائیل کی اس وحشیت کے بعد صہیونی ریاست سے نفرت کے واقعات عالمی سطح پر بڑھ چکے ہیں۔ اسرائیلی جریدے یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں سے اسرائیلی باشندوں کے خلاف عالمی سطح پر نفرت انگیز واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں بلغاریہ میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے اسرائیلی میاں بیوی نے ہوٹل انتظامیہ سے ٹوائلٹ پیپرز طلب کئے تو ہوٹل مینیجر نے انہیں کہا کہ ’ تباہ ہوجاو‘۔ یہ واقعہ اسرائیلی باشندوں کے لیے غیرمعمولی ہے۔ اس جیسے متعدد واقعات اسرائیلی باشندوں کے خلاف رونما ہوئے ہیں۔