ملیر جیل واقعہ، انتظامی عہدوں پر تعیناتیوں کیلئے قوانین تبدیل

کراچی:کراچی میں ملیر جیل واقعے کے بعد محکمہ جیل میں اہم انتظامی اقدامات کیے گیے ہیں۔ذرائع کے مطابق محکمہ جیل میں انتظامی عہدوں پر تعیناتیوں ککیلئے قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ قائم مقام گورنر سندھ اویس قادر شاہ نے آرڈیننس کے اجرا کی منظوری دے دی ہے، آرڈیننس کے ذریعے انتظامی اور رولز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق آئی جی جیل، ڈی آئی جی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے عہدوں پر سول افسران تعینات ہوسکیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ اب انتظامی عہدوں پر پولیس اور صوبائی سول سروس کے افسران کو تعینات کیا جا سکے گا جبکہ پرانے قانون کے تحت جیلوں کے انتظامی عہدوں پر صرف محکمہ جیل کے افسران کو تعینات کیا جا سکتا تھا۔

ذرائع کے مطابق محکمہ قانون نے قائم مقام گورنر اویس قادر شاہ کو آرڈیننس کا مسودہ بھجوایا تھا۔دریں اثناء ملیر جیل سے2روز قبل فرار ہونے والے مزید 3قیدیوں کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد گرفتار قیدیوں کی تعداد94ہو گئی۔

جیل حکام کے مطابق 122 قیدی ابھی بھی مفرور ہیںجن کی گرفتاریکیلئے آپریشن جاری ہے۔حکام نے کہا کہ رضا کارانہ طور پر واپس آنے والے قیدیوں کے ساتھ رعایت برتی جائے گی، مفرور قیدیوں کی گرفتاری کے لیے گھروں پر چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں۔

ادھرانسپکٹر جنرل (آئی جی)جیل خانہ جات قاضی نذیر احمد نے ضلع ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار ہونے میں غفلت اور لاپروائی کے الزام میں ڈی ایس پی جیل سمیت 23 اہلکاروں کو معطل کر دیا۔

معطل کیے جانے والے افسران میں جنرل ایڈمنسٹریشن کے ڈی ایس پی، ڈیوٹی افسر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل شامل ہیں۔آئی جی جیل خانہ کی جانب سے معطل کیے جانے والے دیگر عہدیداروں میں 3ہیڈ کانسٹیبلز جیل کے علاوہ18کانسٹیبلز جیل بھی شامل ہیں۔

معطل ہونے والے اہلکاروں میں نائٹ علمدار، کیچن، گیٹ منشی، گیٹ کیپر، سیکیورٹی وارڈ، جیل کے اندر کے واچ ٹاورز، سیکورٹی وارڈ، اسپتال بند وارڈ اور دیگر مقامات پر تعینات اہلکار شامل ہیں۔

دوسری جانب ملیر جیل سے جب 216 قیدی فرار ہوئے تھے تو ان میں چند شر پسند قیدی ایسے بھی تھے جنھوں نے سیکورٹی اہلکاروں سے ایس ایم جی ہتھیار چھین کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی اور فرار ہو گئے تھے۔

تفتیشی حکام نے باقاعدہ طور پر تحقیقات کا اغاز کر دیا ہے کہ فرار ہونے والے 105 قیدی تو واپس ملیر جیل پہنچا دیے گئے ہیں تاہم سیکورٹی سے چھینی گئی 2 ایس ایم جی تاحال مسنگ ہیں۔

یہ بھی پتا نہیں چل سکا ہے کہ کون سے قیدیوں نے اسلحہ چھینا تھا اور وہ کس جانب فرار ہوئے تھے، کئی قیدیوں کو ان کے اہل خانہ نے خود دوبارہ جیل پہنچایا، اس سلسلے میں تفتیشی ٹیم نے ملیر جیل سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیے ہیں۔

جیل حکام اور عملے کے علاوہ واپس آنے والے قیدیوں سمیت جیل میں پہلے سے موجود قیدیوں سے بھی جیل بریک اور اسلحہ چھیننے سے متعلق پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔تفتیشی ٹیم بیرکس، جیل دفاتر اور دیگر علاقوں میں پہنچی اور کئی شواہد اکٹھے کیے، تصاویر بنائیں۔

پولیس حکام کے مطابق جیل کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے نہ ہونے کی وجہ سے تفتیش میں مشکلات کا سامنا ہے۔علاوہ ازیں ملیر جیل توڑ کر قیدیوں کے فرار ہونے کا مقدمہ درج کرلیا گیا، مقدمے میں انسداد دہشت گردی و دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مقدمہ شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی و دیگر دفعات شامل کی گئیہیں۔مقدمے کے متن میں بتایا گیا ہے کہ رات 12 بج کے پانچ منٹ پر زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے ملزمان نے چیخنے لگے، اس دوران قیدیوں کے ساتھیوں نے اکسایا اور سیل توڑ کر ٹاور کی طرف آئے۔

مدعی مقدمہ کا کہنا تھا کہ جیل کے قیدیوں کو جب روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے مزاحمت کی اور عملے پر تشدد کیا اور ان کا اسلحہ چھین کر فائرنگ کی، فائرنگ کے واقعے میں قیدیوں اور جیل کے اہلکاروں سمیت 8افراد زخمی ہوئے۔

مقدمے کے متن کے مطابق فائرنگ کرنے والوں سمیت 128 قیدی فرار ہوئے ہیں ،88 قیدیوں کو پکڑا جا چکا ہے اور فرار ہونے والے قیدیوں کی تفصیلات بھی مرتب کر لی گئی ہیں۔

مقدمے میں اسلحہ چھیننے ،بلوے اور حراست سے فرار ہونے کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں جبکہ قیدیوں کی ہنگامہ آرائی کے دوران جیل کے اسپتال مین گیٹ اور دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچا۔