تحریر: مولانا محمد یونس الحسینی
قربانی کا تصور انسانی تاریخ میں نہایت قدیم، وسیع اور گہرائی کا حامل ہے۔ مذہبی، اخلاقی اور سماجی پس منظر میں اس کی اہمیت تسلیم شدہ ہے۔ قربانی ایک ایسا عمل ہے جو تمام مذاہب، تہذیبوں اور ثقافتوں میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔ جس کی جڑیں انسان کی فطرت، اس کی عقل اور اس کے ایمان، تینوں میں پیوست ہیں۔ اسلام نے قربانی کے اس عظیم عمل کو ایک خاص روحانی، اخلاقی اور عقلی مفہوم عطا کیا۔ عام طور پر قربانی کو صرف ایک مذہبی رسم سمجھا جاتا ہے، اگر عقل کی نظر سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو قربانی کا فلسفہ انسانیت کی بلند ترین اقدار میں سے ایک قرار پاتا ہے۔ یہ محض ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک گہرا اور عظیم فلسفہ رکھتا ہے۔ ایک فکری، اخلاقی اور تمدنی اصول ہے جس پر فرد اور معاشرہ کی بنیاد استوار ہو سکتی ہے۔
دینِ اسلام میں قربانی کا مقام نہایت بلند ہے، اگر ہم عقل کی کسوٹی پر اس عظیم عبادت کا جائزہ لیں تو قربانی کا فلسفہ نہایت عمیق، بامقصد اور حیات افروز نظر آتا ہے۔ عقل،انسانی فطرت میں وہ نور ہے جو اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے، خیر و شر میں تمیز کرنے اور افعال و نتائج کے درمیان تعلق جوڑنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ جب عقل قربانی کے تصور کو پرکھتی ہے تو وہ اسے ایک بامقصد عمل تسلیم کرتی ہے، نہ کہ اندھی تقلید یا جذباتی فیصلہ۔ عقل یہ جانتی ہے کہ انسان کی فطرت میں خودغرضی، حرص اور خواہشات غالب ہوتی ہیں لیکن قربانی ان نفسانی رجحانات کے خلاف ایک عملی احتجاج ہے۔ عقل ہمیشہ یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ کسی بھی عمل کے پیچھے کیا حکمت ہے، کیا مقصد ہے، کیا نتیجہ ہے؟ بادی النظر میں جانور کو ذبح کرنا ایک ظاہری عمل محسوس ہوتا ہے لیکن جب عقل اس پر غور کرتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایثار، تسلیم، اخلاص، بندگی اور تقویٰ جیسے عظیم تصورات پنہاں ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کا واقعہ اگرچہ مذہبی پس منظر رکھتا ہے، عقل کی نظر میں بھی ایک عظیم درس رکھتا ہے۔ عقل اس واقعے پر غور کرتی ہے کہ آخر ایک باپ اپنے خواب کی تعبیر کے طور پر اپنے بیٹے کو کیوں قربان کرنے چلا؟ کیا عقل اسے قبول کرتی ہے؟ بظاہر نہیں، مگر جب عقل ایمان کے نور سے روشن ہو جاتی ہے تو سمجھ آتا ہے کہ یہ عمل محض ایک جذباتی فیصلہ نہیں، بلکہ ایک عظیم خدائی حکم کی تعمیل تھی جس میں اطاعت، وفاداری اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی گئی۔ عقل مان لیتی ہے کہ خدا کے حکم کے سامنے جذبات، رشتے، مال اور جان سب ہیچ ہیں۔ یہ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ کامیابی اور فلاح کی راہ میں خود پرستی، لالچ اور ذاتی مفادات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ ایک باپ کا محض خدا کے حکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی قربانی پر آمادہ ہونا، اس امر کی دلیل ہے کہ اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے ذاتی جذبات اور خواہشات کی قربانی عقل کا تقاضا بھی ہے۔
قربانی کا اصل مفہوم اپنی خواہشات کو قربان کرنا، اپنی انا کو ختم کرنا اور دوسروں کی بھلائی کے لیے کچھ کھونا ہے۔ عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کسی بھی بلند اخلاقی مرتبے تک پہنچنے کے لیے انسان کو اپنی خواہشات پر قابو پانا پڑتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اسی عقلی اصول کی عملی تصویر ہے۔ یہی تو اصل فلسفہ قربانی ہے کہ اللہ کی رضا کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینا، اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کے راستے میں قربان کرنا، یہ ثابت کرنا کہ انسان کی اصل کامیابی اپنی انا، حرص اور دنیاوی محبتوں کو چھوڑنے میں ہے۔ عقل مانتی ہے کہ کسی بھی نظام کو چلانے کے لیے اطاعت ضروری ہے اور قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ رب کے حکم کے آگے ہر شے کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ عقل اس سوال پر بھی غور کرتی ہے کہ کیا قربانی ہر سال جانور ذبح کرنے کی ایک محض رسم ہے؟ عقل اس کی نفی کرتی ہے۔ قرآن خود اعلان کرتا ہے: ”اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورةالحج: 37) یہ آیت عقل کے تمام سوالوں کا جواب ہے کہ اللہ ظاہری عمل سے زیادہ نیت، اخلاص اور تقویٰ کو دیکھتا ہے۔ یہاں عقل سمجھتی ہے کہ قربانی کا مقصد صرف ظاہری عمل نہیں بلکہ دل کا خالص ہونا ہے۔ حقیقی قربانی وہی ہے جس میں ریاکاری نہ ہو، دکھاوا نہ ہو، بلکہ دل کی گہرائی سے خدا کی رضا مطلوب ہو۔ عقل کہتی ہے کہ انسان کی فطرت میں خودغرضی موجود ہے لیکن جب کوئی شخص اپنی قیمتی چیز کو دوسروں کے فائدے یا رب کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے تو وہ اس فطری خودغرضی پر غالب آجاتا ہے۔ یہی عمل انسان کو اعلیٰ اخلاق تک لے جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم پایاتو انہوں نے عقل کی نہیں بلکہ رب کی مرضی کو ترجیح دی۔ عقل یہاں ہمیں تسلیم و رضا کا سبق سکھاتی ہے کہ بعض اوقات ہماری فہم محدود ہوتی ہے لیکن جو ہستی کامل علم والی ہے، اُس کے حکم پر عمل کرنا ہی دانائی ہے۔ خدا کے حکم کے سامنے سر جھکا دینا ہی عقلِ کامل کی پہچان ہے۔ عقل قربانی کو ایک سماجی پہلو سے بھی دیکھتی ہے۔ عقل اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ ایک ایسا عمل جو نہ صرف فرد کی روحانی تربیت کرے بلکہ سماج میں خیر و برکت کا باعث بنے، وہ قابل قدر ہے۔ قربانی کا جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صرف اپنے لیے نہیں رکھنا بلکہ غربائ، مساکین، یتامیٰ اور محتاجوں میں تقسیم کرنا، معاشرتی عدل و احسان کا عملی مظاہرہ ہے، جو معاشرتی ہمدردی، مساوات، محبت کو فروغ دینے اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے۔ عقل بھی اس اصول کی تصدیق کرتی ہے کہ ایک فلاحی معاشرہ تبھی قائم ہوتا ہے جب طاقتور کمزور کا خیال رکھے۔
قربانی کا فلسفہ اگر عقل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک گہرا، معقول اور بامقصد عمل نظر آتا ہے۔ یہ محض ایک ظاہری رسم نہیں بلکہ روحانی بلندی، اخلاقی تربیت، معاشرتی ہم آہنگی اور محبتِ الٰہی کا ایک مکمل درس ہے۔ یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ ایک تربیتی نظام کا حصہ ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات کو ذبح کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے اگر دل کا ٹکڑا بھی قربان کرنا پڑے تو کر دینا ہی عقلمندی، کامیابی اور بندگی ہے۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم تر پیغام کا مظہر ہے۔ یہ پیغام ایثار، اطاعت، تسلیم و رضا اور اپنی خواہشات کو رب کی رضا پر قربان کرنے کا ہے۔ عقل قربانی کو ایک جامع اور عظیم الشان فلسفہ سمجھتی ہے، جو انسان کو مادّی و روحانی ہر دو جہانوں میں کامیابی کا راستہ دکھاتی ہے۔ یقینا قربانی وہ عمل ہے جو انسان کو اس کی انا، حرص اور خود غرضی سے نکال کر خالص انسانیت اور بندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتا ہے۔
عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ہر عمل میں نیت، شعور اور مقصد ہو، اور قربانی اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ اگر عقل سے پوچھا جائے کہ قربانی کا اصل پیغام کیا ہے تو وہ کہے گی: قربانی ایک تربیتی عمل ہے، جو انسان کو خود غرضی سے نکال کر نوعِ انسانی سے محبت، احسان اور فداکاری کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ عمل انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں، مال، جان، اولاد، سب فانی ہیں اور اصل وفا اللہ کی رضا میں ہے۔ قربانی کی روح کو اگر عقل کی میزان پر پرکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی درحقیقت انانیت، خود پرستی، مادہ پرستی اور دنیا پرستی کے خلاف ایک عملی احتجاج ہے۔ ایک عقل مند انسان جانتا ہے کہ معاشرہ تبھی امن، محبت اور بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے جب اس میں قربانی کا جذبہ موجود ہو۔ اگر ہر فرد اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کے لیے جینا سیکھ لے تو دنیا ایک جنت نظیر جگہ بن سکتی ہے۔ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ہم قربانی کے اس عظیم فلسفے کو صرف ایک عمل نہ سمجھیں بلکہ اس کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر سال صرف جانور کی قربانی نہ کریں بلکہ اپنے مال کی، اپنی ضد کی، اپنی نفسانی خواہشات، خودغرضی، بغض، حسد اور کینہ کو بھی قربان کردیں تاکہ ہم ایک بہتر انسان اور ایک بہتر امت بن سکیں۔