انصاف میں تاخیر عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے،سپریم کورٹ

اسلام آباد:سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک فیصلے میں ریمارکس دیے کہ انصاف میں تاخیر صرف انصاف سے انکار نہیں بلکہ اکثر اوقات انصاف کو ختم کر دیتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس جائیداد نیلامی کیس کے فیصلے میں سامنے آئے اور مذکورہ مقدمہ 14 سال تک عدالتوں میں زیرِ التوا رہا۔

مقدمے کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے بینچ نے 18 جولائی کو کی اور 28 دن بعد 4 صفحات کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں جائیداد کی نیلامی2011ء میں ہوئی، درخواست گزار نے فوراً اعتراضات دائر کیے لیکن اپیل پشاور ہائیکورٹ میں غیر معمولی طور پر 10 سال تک زیرِ التوا رہی اور 2021ء میں فیصلہ آیا، سپریم کورٹ میں یہ کیس 2022ء میں پہنچا اور اب 3 سال بعد 2025ء میں سنا گیا، اس دوران درخواست گزار یا اس کا کوئی نمائندہ عدالت میں پیش ہی نہیں ہوا۔

فیصلے کے مطابق ملک بھر میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں، سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے باوجود تقریباً 56 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں لکھا کہ انصاف میں تاخیر عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو مجروح اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے، خاص طور پر کمزور اور پسے ہوئے طبقات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

فیصلے میں جدید کیس مینجمنٹ سسٹم، پرانے مقدمات کی نشاندہی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انصاف میں تاخیر ناگزیر نہیں بلکہ اسے ادارہ جاتی اصلاحات سے ختم کیا جا سکتا ہے۔