او آئی سی کی جنوبی ایشیا میں سلامتی کی صورتحال پر تشویش

نیویارک:پاکستان کے اعلیٰ سطح کے سفارتی مشن نے بین الاقوامی برادری پر واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانا اور پانی روکنا خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔

بھارت نے جھوٹے الزامات کو سرحد پارحملوں کا جواز بنایا، امن کا راستہ صرف مکالمے اورسفارتکاری سے ممکن ہے،مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے پاکستان کی حمایت جاری رکھی جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی سفارتی مشن نے نیویارک میں امریکی اور روسی مندوب سمیت سلامتی کونسل، او آئی سی ممبران سے ملاقاتیں کیں اور انہیں بھارت کے پہلگام واقعے پر بے بنیاد پروپیگنڈے، پاکستان کیخلاف جارحیت اور پاکستان کے ان واقعات پر موقف سے آگاہ کیا اور عالمی برادری پرزوردیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار اداکریں۔

اقوام متحدہ میں امریکا کی مندوب ڈورتھی شیا سے بلاول بھٹو کی قیادت میں پارلیمانی وفد نے ملاقات کی اور بتایا کہ بھارت کی طرف سے دریاؤں کا پانی روکنا اعلان جنگ ہو گا، مودی پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر کے کروڑوں انسانوں کو سزا دینا چاہتا ہے جبکہ پانی روکنے کی دھمکیاں یو این چارٹر کی خلاف ورزی ہیں۔

امریکی مندوب کو یہ بھی بتایا گیا کہ ماضی میں بہت سے تنازعات کے دوران سندھ طاس معاہدہ قائم رہا، بغیر تحقیق کے پاکستان پرالزام تراشی کے بعد حملہ کرنا بذات خود سوالیہ نشان ہے، بھارتی موقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے اس کے موقف کو من و عن بیان کر دینا کافی ہے۔

بلاول بھٹو نے امریکاسے مطالبہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے پاکستان کی حمایت جاری رکھی جائے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے امریکی وفد پر واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اوّل میں رہا ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔

انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام حل طلب مسائل کے حوالے سے بامعنی اور جامع مکالمے کے آغاز میں اپنا کردار ادا کرے، بالخصوص سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بھارتی فیصلے کا نوٹس لے۔

اس موقع پر بلاول بھٹو نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں سہولت کاری پر امریکی انتظامیہ، بالخصوص صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ بھی ادا کیا۔علاوہ ازیں پاکستان کے اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفد نے اقوام متحدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے سفیروں کو پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد جاری صورتحال سے آگاہ کیا ۔

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے جنوبی ایشیا میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور سندھ طاس معاہدے کے تقدس کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت پانی کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس طرز عمل کو معمول بننے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔

بلاول بھٹو نے جموں و کشمیر کے عوام کے لیے مستقل حمایت پر او آئی سی رکن ممالک کا شکریہ ادا کیا اور واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ اور پائیدار حل ناگزیر ہے، کشمیری عوام کے جائز حقوق، بالخصوص اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت کے لیے اپنی اصولی حمایت جاری رکھیں۔

او آئی سی ممالک نے تمام تنازعات، بالخصوص مسئلہ جموں و کشمیر کے پُرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کی سفارتی اور مذاکراتی کوششوں کا خیر مقدم کیا، پاکستان کی بروقت اور شفاف بریفنگ کو سراہا اور پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ اپنی مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔

دوسری جانب پاکستانی سفارتی مشن کے قائد بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پارلیمانی وفد نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب اراکین سے نیویارک میں ملاقات کی۔

بلاول بھٹو نے چین، روس، ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر، گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون اور سلووینیا کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں پاکستان کا مؤقف واضح انداز میں پیش کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے بے بنیاد بھارتی الزامات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب اراکین کے سامنے دلائل کے ساتھ مسترد کیا اور کہا کہ بغیر کسی تحقیق یا شواہد کے پاکستان پر الزام تراشی ناقابلِ قبول ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے شہری علاقوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے، سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی قلت، غذائی بحران اور ماحولیاتی تباہی جنم لے سکتی ہے۔

عالمی برادری صرف تنازع کے بعد حل کی کوششوں تک محدود نہ رہے بلکہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے تنازع سے قبل حل تلاش کرے۔واضح رہے کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں 9 رکنی پاکستانی وفد واشنگٹن ڈی سی، لندن اور برسلز کا بھی دورہ کرے گا۔