غزہ میں اسرائیلی درندگی،امدادی مرکز پر حملہ،36شہید

مقبوضہ بیت المقدس/عمان /صنعا/واشنگٹن:اسرائیل نے مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کو فلسطینی صدر کی دعوت پر مغربی کنارے کا دورہ کرنے سے روک دیا ۔عرب وزراء نے اسرائیل کی جانب سے عرب وفد کے رام اللہ کے دورے اور فلسطینی حکام کے ساتھ ملاقات سے روکنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ایک قابض قوت کے طور پر اسرائیل پر عائد ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

عرب وزرائے خارجہ کا اتوار کو فلسطینی اتھارٹی کے صدر دفتر رام اللہ کا دورہ شیڈول تھا تاہم اسرائیل نے مصر، اردن، سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کو روک دیا کہ فلسطینی انتظامی دارالحکومت رام اللہ میں ہونے والے مجوزہ اجلاس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

واضح رہے کہ یہ اجلاس ایک بین الاقوامی کانفرنس سے قبل منعقد ہونا تھا جس کی مشترکہ میزبانی فرانس اور سعودی عرب کریں گے، یہ کانفرنس 17 سے 20 جون تک نیویارک میں منعقد ہونے والی ہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔

اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ عرب وزرائے خارجہ فلسطینی ریاست کے قیام پر بات چیت کے خواہشمند ہیں تاہم فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دیں گے۔عرب ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے رکاوٹ ڈالے جانے کی مشترکہ مذمت کرتے ہوئے اپنا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔

دوسری جانب اردن کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے عرب وفد کے رام اللہ کے دورے اور فلسطینی حکام کے ساتھ ملاقات سے روکنے کا فیصلہ ایک قابض قوت کے طور پر اسرائیل پر عائد ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

عرب نیوز کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس سے اسرائیلی حکومت کے بڑھتے تکبر کی جھلک ملتی ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کی بے توقیری کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مسلسل بڑھتے ناجائز اقدامات اور پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتا ہے اور اس نے فلسطین کی جائز قیادت اور عوام کو نرغے میں لے رکھا ہے، اس سے امن کے ایک منصفانہ اور جامع حل کے امکانات کو کمزور کیا جا رہا ہے۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ وفد میں اردن، مصر، سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کے وزرا شامل تھے۔ ادھر وفد کو روکنے کے بعد اسرائیل کو اقوام متحدہ اور یورپی ممالک کی جانب سے شدید دبا ئوکا سامنا ہے جوکہ اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں، جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست بھی موجود ہو گی۔

ادھراسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر جمع فلسطینیوں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کم از کم 36افراد شہید اور 120 زخمی ہو گئے،دوسری جانب یمن کی فوج نے اسرائیل میں کام کرنے والے غیرملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو اسرائیل چھوڑنے کیلئے الٹی میٹم دے دیا۔

غزہ میں حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسرائیل نے رفح میں ایک امریکی حمایت یافتہ امدادی مرکز پر حملہ کیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ شہادتیں ان علاقوں کی حیثیت کو انسانی امداد کے مراکز کے بجائے موت کے جال کے طور پر ظاہر کرتی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم پوری دنیا کو تصدیق کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امداد کا ایک منظم اور بدنیتی پر مبنی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہے جس کا مقصد بھوکے شہریوں کو بلیک میل کرنا اور انہیں جان بوجھ کر ایسے کھلے مقامات پر اکٹھا کرنا ہے جہاں انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔

یہ مقامات قابض فوج کے زیر انتظام اور نگرانی میں ہیں اور ان کی مالی معاونت اور سیاسی سرپرستی قابض حکومت اور امریکی انتظامیہ کر رہے ہیں جو ان جرائم کی مکمل اخلاقی اور قانونی ذمہ دار ہیں۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی غزہ پر جاری جنگ کے دوران اب تک کم از کم 54 ہزار 381 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 24 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

دریں اثناء سعودی عرب کے وزیر خارجہ، شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود، غزہ کی پٹی پر جاری جنگ اور محاصرے کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں ایک وزارتی اجلاس میں شرکت کے لیے اردن پہنچے ہیں۔

یہ اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیلی حکام نے اس ہفتے کے آخر میں مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں عرب وزرائے خارجہ کے وفد کو جمع ہونے سے روک دیا تھا۔دوسری جانب یمن کی فوج نے اسرائیل میں کام کرنے والے غیرملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو اسرائیل چھوڑنے کیلئے الٹی میٹم دے دیا۔

یمنی فوج کا کہنا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے اسے ضائع نہ کریں، ہمارے میزائل مختلف وارہیڈز لے جاسکتے ہیں اور اگران میزائلوں کو روکا تو یہ مزید ٹارگٹس کو ہٹ کریں گے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل میں موجود غیرملکیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کی سخت وارننگ جاری کی ہے۔

یمنی فوجی ذرائع کے مطابق اسرائیل میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے فوری طور پر انخلا اختیار کریں کیونکہ ان کے لیے وہاں صورتحال کسی بھی طرح محفوظ نہیں رہی۔ غزہ سے فلسطینی حکام کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ 48 گھنٹوں میں غزہ کی 70 سے زائد رہائشی عمارتوں کو تباہ کر دیاہے۔

علاوہ ازیں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ سے تباہ حال شہر غزہ میں آٹے کی قیمت 20 ڈالر (تقریباً 5 ہزار 500 روپے) فی کلو تک پہنچ گئی، اسرائیلی محاصرے نے خاندانوں کو خوراک کی تلاش پر مجبور کردیا۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی آٹے کی منڈیاں محاصرے کے بعد بقا کے لیے جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کے لیے امتحان بن چکی ہیں اور سنگ دل معیشت کو ظاہر کرتی ہیں، دنیا بھر میں اوسطاً ڈیڑھ ڈالر فی کلو فروخت ہونے والا آٹا اسرائیلی پابندیوں کے باعث اب 20 ڈالر فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔

غزہ میں جنگ سے پہلے کی یومیہ اجرت محض 18 ڈالر تھی، اب بے روزگاری عام ہے، خاندان آٹے کی قلیل مقدار کو دنوں تک چلاتے ہیں اور محصور فلاحی کچن پر انحصار کرتے ہیں۔والدین ناقابلِ تصور فیصلوں کا سامنا کر رہے ہیں، یا تو انتہائی مہنگی قیمت ادا کریں یا اپنے بچوں کو کھانے کی بھیک مانگتے دیکھیں، جب کہ غذائی قلت سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بیوائیں اور دیگر کمزور طبقات شدید مشکلات کا شکار ہیں، جو اکثر اس امداد پر انحصار کرتے ہیں جو اب شاذ و نادر ہی ان تک پہنچتی ہے۔امریکا اور اسرائیل اپنی حمایت یافتہ فلاحی تنظیموں کے مراکز سے امداد تقسیم کر رہے ہیں، تاہم مقامی ماہرین نے ان امدادی مراکز کو موت کا پھندا قرار دیا ہے، جہاں جانے والے فلسطینیوں کو گھیر کر باقاعدہ نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ادھرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ میں خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی پیشکش پر حماس کا ردعمل ناقابل قبول ہے، حماس کو جنگ بندی تجویز کو قبول کرنا چاہیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ حماس امریکا کی پیش کردہ جنگ بندی تجویز کو مسترد کررہی ہے۔

اسرائیل یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کو شکست دینے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے گاجبکہ سینئر اسرائیلی حکام نے کہاہے کہ حماس کا ردعمل منفی تھا۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ حماس نے وٹکوف کی تجویز کو موثر طریقے سے مسترد کر دیا ہے۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے وٹکوف تجویز میں حماس کی ترامیم پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ تحریک نے امریکی ایلچی کے منصوبے کو مسترد کر دیا اور ایک نئی تجویز تیار کی۔اخبار نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ حماس کے ردعمل نے معاہدے کا دروازہ بند کر دیا ہے۔

اخبار نے اطلاع دی ہے کہ حماس نے اپنے ردعمل میں سات سال تک کی جنگ بندی، نئے امدادی ماڈل کی منسوخی اور گذشتہ مارچ سے اسرائیلی فوج کے ان علاقوں سے انخلا کا مطالبہ کیا ہے جن پر اس نے حملہ کیا تھا۔قبل ازیں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی بستیوں کی طرف دو راکٹ فائر کیے گئے۔ اسی دوران اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی کے اطراف کے علاقوں میں فضائی حملے کے سائرن بجنے لگے۔