غزہ،عالمی ادارے کی امداد معطل،خوفناک قحط،بمباری میں مزید60شہید

غزہ/تل ابیب/پیرس/برلن/نیویارک/بارسلونا:غزہ کی وزارت صحت نے ہفتے کے روز اطلاع دی ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی جاری منظم نسل کشی کے نتیجے میں 60 فلسطینی شہید اور 284 زخمی ہوئے جس کے بعد 19 ماہ سے جاری قتل عام کی مجموعی تعداد 1,78,435 شہدا اور زخمیوں تک جا پہنچی ہے۔

وزارت نے اپنے یومیہ اعداد و شمار میں بتایا کہ شہداء میں ایک ایسا فلسطینی بھی شامل ہے جس کی لاش ایک پہلے تباہ شدہ گھر کے ملبے تلے سے نکالی گئی۔وزارت نے وضاحت کی کہ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی جنگی جرائم کے نتیجے میں اب تک 54,381 فلسطینی شہید اور 124,054 زخمی ہو چکے ہیں۔

وزارت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے 18 مارچ 2025ء کو اجتماعی قتل عام دوبارہ شروع کیے جانے کے بعدسے اب تک 4,117 فلسطینی شہید اور 12,013 زخمی ہو چکے ہیں۔بیان میں مزید بتایا گیا کہ متعدد شہداء اور زخمی اب بھی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے اور سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں جہاں امدادی ٹیموں اور شہری دفاع کے اہلکاروں کے لیے پہنچنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

ادھراسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ہفتے کے روز قومی قوتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد، اپنے عوام اور ان کی مسلسل قربانیوں کے تناظر میں اعلیٰ درجے کی قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کی حالیہ تجویز پر اپنا باضابطہ ردِعمل ثالثوں کو پیش کر دیا ہے۔

حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز کا بنیادی مقصد قابض اسرائیل کے حملوں کو بند کرنا، غزہ کی پٹی سے اس کا مکمل اور غیر مشروط انخلاء اور اہلِ غزہ تک انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمت کے قبضے میں موجود قابض اسرائیل کے 10 زندہ قیدیوں کی رہائی اور 18 صہیونیوں کی لاشوں کی حوالگی کے بدلے وہ فلسطینی قیدیوں کی ایک متفقہ تعداد کو رہا کرنے پر آمادہ ہے جبکہ قدس نیوز نیٹ ورک کے مطابق اسرائیلی توپ خانے نے وسطی غزہ کے النصیرات پناہ گزین کیمپ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اردن کے راستے حج پر جانے والے عازمین کی منی بس کو ٹکر ماردی۔ فلسطینی خبر رساں ادارے وفا کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کی صبح شمال مغربی کنارے کے شہر جنین میں پیش آیا۔وفا نے عینی شاہدین اور حکام کے حوالے سے بتایا کہ منی بس میں فلسطینی عازمین حج سعودی عرب جانے کے لیے اردن کے راستے جا رہے تھے، انہیں جان بوجھ کر ٹکر ماری گئی جس سے بزرگ مسافروں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

جنین کے نائب گورنر منصور السعدی نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فوجی گاڑی نے براہِ راست اس منی بس کو ٹکر ماری، جو گورنریٹ کمپائونڈ کے باہر کھڑی تھی۔اگرچہ اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا لیکن منی بس کو نقصان پہنچا اور حاجیوں میں شدید ذہنی دبائو اور پریشانی پیدا ہوئی۔

دوسری جا نب اسرائیلی اخبار نے ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 7اکتوبر 2023 ء سے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران کم از کم 20اسرائیلی قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔اخبار نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ مغویوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ان آپریشنز نے 54قیدیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا جن میں سے کم از کم 20قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔ذرائع کے مطابق کئی مواقع پر غزہ میں ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا جہاں قیدیوں کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے بعض قیدی براہ راست بمباری کا نشانہ بنے جبکہ دیگر کو ان کے اغوا کاروں نے اس وقت مار دیا جب انہیں خدشہ ہوا کہ اسرائیلی فوج ان کے قریب پہنچ گئی ہے۔

دریں اثناء اسرائیل نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ وہ غزہ میں مغویوں کی رہائی کے لیے پیش کردہ معاہدے کو قبول کرے ورنہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ حماس کو امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کیے گئے جنگ بندی منصوبے کو تسلیم کرنا ہو گا ورنہ تباہی اس کا مقدر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اب حماس کو فیصلہ کرنا ہوگا یا تو مغویوں کی رہائی کے لیے امریکی معاہدہ قبول کرے ورنا پھر اسے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں فلسطینی قوم پرمسلط کی گئی صہیونی نسل کشی، محاصرے اور وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بھوک اور پیاس کی چکی میں پسنے والے محصور فلسطینیوں کے لیے ایک اور المناک خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک نے غزہ میں اپنا امدادی عمل عارضی طور پر روک دیا ہے۔

اس فیصلے سے 23 لاکھ سے زائد غزہ کے محصور اور قحط زدہ عوام کو شدید صدمہ پہنچا ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ادارے نے 77 تجارتی ٹرک ڈرائیوروں کے معاہدے معطل کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک فائر بندی کا کوئی باقاعدہ معاہدہ طے نہیں پاتا اور اقوام متحدہ و دیگر انسانی اداروں کی محفوظ سرگرمیوں کے لیے موزوں حالات پیدا نہیں کیے جاتے۔

امدادی کام بحال نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ میں اس وقت ہر طرف تباہی، بے بسی اور درد کی ایک کہانی بکھری ہوئی ہے۔ڈرائیوروں کے مطابق عالمی ادارہ خوراک کا امدادی نظام اس وقت مفلوج ہو چکا ہے کیونکہ خوراک کے گودام، ٹرک اور دیگر تنصیبات لوٹ مار، تخریب کاری اور بدامنی کا نشانہ بن چکی ہیں۔

چوروں کے منظم گروہوں نے نہ صرف ٹرکوں کے ٹائروں، انجنوں، بیٹریوں اور ایندھن کو لوٹ لیا بلکہ کئی گاڑیوں کو تباہ بھی کر دیا۔ ان میں وہ جدید ٹرک بھی شامل ہیں جو جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے میں 19 جنوری سے 2 مارچ 2023ء کے دوران، امداد لے کر غزہ پہنچے تھے مگر قابض اسرائیل نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر غزہ کو خون میں نہلا دیا۔

گذشتہ دنوں کے دوران غزہ میں عالمی ادارہ خوراک کے گوداموں میں افراتفری، لوٹ مار اور سامان کی چوری کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں آٹے، غذائی اشیائ، برقی جنریٹرز اور گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

اسرائیلی بمباری نے غزہ کی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر غزہ کو لاقانونیت کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ پولیس اہلکاروں کی شہادت اور گشت نہ ہونے کی وجہ سے چوروں اور لٹیروں کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے اور امدادی قافلے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں۔

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے مشرق میں واقع قصبہ ”خزاعہ” صہیونی درندگی کا ایک اور دل دہلا دینے والا شکار بن گیا بلدیہ خزاعہ نے ہفتے کے روز باقاعدہ طور پر اعلان کیا ہے کہ قصبہ اب مکمل طور پر تباہ شدہ علاقہ بن چکا ہے۔ قابض اسرائیل کی براہِ راست اور مسلسل بمباری نے زندگی کے ہر نشان کو مٹا دیا ہے۔

بلدیہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیلی فوج نے قصبے کے تمام گھروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ نہ صحت کی سہولتیں باقی بچیں، نہ تعلیم کی روشنیاں۔ ہسپتالوں اور اسکولوں کی عمارتیں تباہ کر دی گئیں جنہیں انسانیت کی خدمت کے لیے بنایا گیا تھا۔

سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں، بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے۔ صہیونی بمباری اور گولہ باری کی بوچھاڑ کے سائے میں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔بلدیہ خزاعہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جو کچھ اس قصبے کے ساتھ کیا گیا وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ایک مسلسل جاری جنگی جرم ہے۔

تباہی کی شدت اتنی گہری ہے کہ خزاعہ اب زندگی کی رمق سے خالی ہو چکی ہے، مکمل طور پر ناقابل رہائش ہو چکی ہے۔خزاعہ کے باسی آج اپنے ہی وطن میں دربدر ہیں، اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر مختلف علاقوں میں بے سروسامانی کے عالم میں زندگی کی تلخیوں سے لڑ رہے ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے اور انسانیت ایک کرب ناک امتحان سے دوچار ہے۔

ادھرغزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی پر فرانس اور جرمنی کی بھی بس ہوگئی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے اسرائیل کو خبردارکرتے ہوئے کہا کہ اگر چند گھنٹوں اور دنوں میں غزہ میں انسانی امدادی صورت حال بہتر نہ ہوئی تو فرانس، اسرائیلی آبادکاروں پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔

دوسری جانب جرمنی نے بھی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی غزہ کی صورت حال سے مشروط کرنے کا اشارہ دے دیا۔اسرائیل نے فرانسیسی صدر میکرون پر یہودی ریاست کے خلاف صلیبی جنگ جاری رکھنے کا الزام عائد کردیا۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر میکرون کی یہودی ریاست کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے، صدر میکرون کو حقائق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی ناکہ بندی نہیں ہے اور امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل سہولت فراہم کر رہا ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ حماس پر دباؤ ڈالنے کے بجائے میکرون انہیں فلسطینی ریاست کا انعام دینا چاہتے ہیں اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہیکہ ہم فلسطین کے مغربی کنارے میں یہودی اسرائیلی ریاست قائم کریں گے۔ صدر میکرون اور ان کے ساتھیوں کے لیے ہمارا واضح پیغام ہے کہ وہ فلسطین کو کاغذ کے ٹکڑے پر تسلیم کریں گے اور ہم یہاں زمین پر اسرائیلی ریاست قائم کریں گے۔

قبل ازیںاقوام متحدہ نے غزہ کو روئے زمین کا بھوکہ ترین قطعہ اراضی قرار دے دیا۔عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی ایک معمولی مقدار کے علاوہ کچھ بھی داخل ہونے سے روک رہا ہے اور وہاں تیار شدہ کھانا دستیاب نہیں ہے۔

ترجمان جینس لایرکے نے کہا کہ 900میں سے صرف 600امدادی ٹرکوں کو غزہ کے ساتھ اسرائیل کی سرحد تک جانے کی اجازت دی گئی تھی اور وہاں سے افسر شاہی اور سیکورٹی کی رکاوٹوں کے باعث بحفاظت علاقے میں امداد پہنچانا ممکن نہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم صرف آٹا لانے میں کامیاب رہے ہیں، یہ کھانے کیلئے تیار نہیں ہے، غزہ کی 100فیصد آبادی کو قحط کا خطرہ ہے۔ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کی بین الاقوامی کمیٹی کے ترجمان ٹوماسو ڈیلا لونگا نے مزید کہا کہ ایندھن یا طبی آلات کی کمی کے باعث اس خطے میں نصف طبی سہولیات بیکار ہیں۔

ادھراسرائیل نے سعودی عرب سمیت عرب وزرائے خارجہ کو مقبوضہ فلسطین کے علاقے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اتوار کو مغربی کنارے کے دورے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، قطر اور ترکی کے وزرائے خارجہ اتوار کو رام اللہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں ایک وزارتی وفد اتوار کو رام اللہ جائے گا۔

فلسطینی سفارت خانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے 1967ء میں فلسطینی سرزمین پر قبضے کے بعد کسی سعودی وزیر خارجہ کا مغربی کنارے کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔سعودی وزیر خارجہ کے مغربی کنارے کے ممکنہ دورے کے فیصلے کے بعد اسرائیل نے سعودی عرب سمیت عرب وزرائے خارجہ کو رام اللہ جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک اہلکار نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی عرب وزراء خارجہ کی رام اللہ میں میزبانی کی خواہش رکھتی ہے تاکہ فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ ایسی ریاست قبول نہیں کی جائے گی۔

اسپین کے شہر بارسلونا نے ایک تاریخی اور جرات مندانہ اقدام کرتے ہوئے قابض اسرائیل سے تمام سرکاری تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور تل ابیب کے ساتھ دوستی کے معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فلسطینی قوم صہیونی درندگی، اجتماعی قتل عام اور غزہ میں قحط جیسے مظالم کا سامنا کر رہی ہے۔

بارسلونا کی میونسپل کونسل نے ایک باقاعدہ ووٹنگ کے بعد اسرائیلی حکومت سے ادارہ جاتی تعلقات ختم کرنے اور تل ابیبـیافا کے ساتھ 24 ستمبر 1998ء کو ہونے والے دوستانہ معاہدے کو اس وقت تک معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کا احترام نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔

یہ فیصلہ حکمران سوشلسٹ پارٹی، بائیں بازو کی دیگر جماعتوں اور آزادی کے حامی گروہوں کی حمایت سے منظور کیا گیا جس میں بیس نکات شامل ہیں۔ ان نکات میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور ان کی پشت پناہی کرنے والی ہتھیار ساز کمپنیوں یا ان اداروں کو جو نسل کشی، قبضے، نسل پرستی اور استعماری منصوبوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بارسلونا میں کسی سرکاری نمائش میں جگہ نہ دی جائے۔

بارسلونا کے سوشلسٹ میئر، جاؤمی کولبونی، نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران غزہ میں جو اذیت اور موت دیکھی گئی ہے اور حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسلسل حملے اس امر کو ناقابل قبول بناتے ہیں کہ بارسلونا اور تل ابیب کے درمیان کوئی بھی تعلق برقرار رکھا جائے۔

ادھر اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے بارسلونا کے اس جرات مندانہ اور اصولی فیصلے کو سراہا ہے۔ ہفتے کے روز جاری کردہ اپنے بیان میں حماس نے کہا کہ ہم بارسلونا کی میونسپل کونسل کے اس فیصلے کی تحسین کرتے ہیں جس میں قابض اسرائیلی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے اور تل ابیب کی قابض بلدیہ کے ساتھ دوستی معطل کرنے کا اعلان کیا گیا۔

یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور ان پر جاری وحشیانہ نسل کشی کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے۔حماس نے دنیا بھر کی حکومتوں اور شہروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کریں، اسے عالمی سطح پر تنہا کریں اور غزہ میں بھوک اور قتل عام جیسے جرائم پر اس کا احتساب کریں۔ یہ وقت ہے کہ انسانیت اور انصاف کی سربلندی کے لیے مضبوط قدم اٹھائے جائیں۔