غزہ میں 60 روز کے لیے جنگ بندی معاہدے کی تیاری

رپورٹ: علی ہلال
غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک مرتبہ پھر سے کوششیں جاری ہیں۔ کل جمعہ کی صبح تک آنے والی آخری اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیفن ویٹکوف نے اسرائیل کو تجویز پیش کردی ہے، جس پر صہیونی ریاست نے رضامندی ظاہر کردی یے تاہم غزہ کی مقاومتی تنظیم حماس اب تک جائزہ لے رہی ہے۔
عرب میڈیا کو موصول ہونے والی دستاویز مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی نمائندے ویٹکوف کی تیار کردہ ہیں۔ دستاویز میں 60 دن کی جنگ بندی شامل ہے جس کی پابندی اسرائیل کی طرف سے امریکی صدر ٹرمپ کی ضمانت ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس پہلے اور ساتویں دن زندہ قیدیوں کی رہائی کرے گی جن کی تعداد 10 ہے اور 18 لاشیں بھی حوالے کرے گی۔ حماس کے جنگ بندی پر رضامندی کے بعد فوری طور پر غزہ میں امدادی سامان پہنچایا جائے گا۔دستاویز کے مطابق معاہدے کے نفاذ کے شروع ہوتے ہی اسرائیل کی تمام عسکری سرگرمیوں کو دستاویزی شکل دی جائے گی اور جنگ بندی کے پہلے دن مستقل جنگ بندی کے انتظامات پر مذاکرات شروع ہوں گے۔ دسویں دن حماس تمام قیدیوں کی مکمل فہرست فراہم کرے گی۔ وٹکوف کے مسودے کے مطابق امداد اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کے ذریعے تقسیم کی جائے گی۔ قیدیوں کی حوالگی بغیر کسی عوامی جشن یا مظاہرے کے ہو گی۔ حماس نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے ویٹکوف کے ذریعے مجوزہ نیا معاہدہ وصول کر لیا ہے اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق ویٹکوف کا غزہ میں جنگ بندی کا منصوبہ 10 یرغمالیوں کی رہائی، 18 لاشوں کی حوالگی اور 60 دن کی جنگ بندی پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی عمر قید کی سزا کاٹنے والے 125 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا منصوبہ بھی ہے۔
بعض عرب میڈیا اداروں کے مطابق حماس نے واضح کیا ہے کہ اس تجویز کے تحت وہ 10 زندہ قیدی اور 18 لاشیں حوالے کرے گی، جن میں نصف پہلے دن (5 زندہ اور 9 لاشیں) اور نصف ساتویں دن دی جائیں گی۔ بدلے میں 125 عمر قید کے فلسطینی قیدیوں اور سات اکتوبر کے بعد گرفتار ہونے والے 1111 قیدیوں کی رہائی ہوگی اور 180 فلسطینی لاشیں بھی واپس ہوں گی۔ رپورٹ کے مطابق حماس کے وفد کے سربراہ خلیل الحیہ ثالثوں سے ملاقات کررہے ہیں تاکہ انہیں تحریک کے ردعمل سے آگاہ کیا جا سکے۔ حماس کے ایک ذریعے نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ یہ تجویز حماس کے مطالبات کو پورا نہیں کر رہی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ چند گھنٹوں میں غزہ میں جنگ بندی کی تفصیلات کا اعلان کریں گے۔ذرائع نے واضح کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیو ویٹکوف کو اسرائیل کے غزہ جنگ بندی کے معاہدے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں وائٹ ہاوس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی تازہ ترین امریکی تجویز سے اتفاق کرلیا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ حماس کی جانب سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
العربیہ نے جمعرات کو حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے ’ممکنہ‘ معاہدے کی دستاویز کا مسودہ حاصل کرلیا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے یرغمالیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجویز کو قبول کر لیا ہے جو ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی ویٹکوف نے پیش کیا تھا۔جس کے مطابق نیتن یاہو جمعرات کی رات متعدد وزرا کے ساتھ وٹکوف کے منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔ وٹکوف کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ معاہدے کے لیے فریقین کی وابستگی کے لیے سنجیدہ ہیں اور وہ ذاتی طور پر ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کریں گے۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا، مصر اور قطر 60 دن تک جنگ بندی جاری رکھنے اور کسی بھی ممکنہ توسیع کی ضمانت دیں گے۔ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دیں گے اور مذاکرات کی قیادت سنبھالیں گے۔
یادرہے کہ سات اکتوبر 2023ء سے حماس کے حملے کو بنیاد بنا کر شرو ع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ 600 دن گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 54 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ نومبر 2023ء میں پہلی مرتبہ جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا جس میں حماس کی جانب سے اسرائیلی قیدیوں کو رہائی دی تھی جن کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ صرف سات دن تک برقرار رہا تھا۔
نومبر 2023ء کے بعد مصر ،قطر اور امریکا کی ثالثی میں کوششیں جاری رہیں۔ رواں برس جنوری میں دوسرا جنگ بندی معاہدہ ہوا۔ یہ ایک دیرپا اور مستحکم معاہدہ تھا۔ تین مراحل پر مشتمل اس کا پہلا مرحلہ 42 دن ہر مشتمل تھا جس میں حماس نے اسرائیل کے 33 قیدیوں کو رہائی دینی تھی،جن کے بدلے اٹھارہ سو فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی۔ تاہم اسرائیل نے دوسرے مرحلے کے آغاز کے بغیر ہی دو مارچ سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور غزہ میں جانے پر قسم کی امداد بند کردی۔جبکہ اٹھارہ مارچ کو اسرائیل نے غزہ میں دوبارہ جنگ کا آغاز کردیا ہے جو اب تک جاری ہے۔ اسرائیل کا محاصرہ 92 دن سے زائد عرصے تک جاری رہا۔
گزشتہ منگل کے روز عالمی دباو کے بعد اسرائیل نے امداد کی رسائی پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ تاہم اونروا سمیت کسی ادارے کو اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اونروا کے مطابق ان کے پاس 90 ہزار انسانوں کو ایک ماہ تک امداد دینے کی ابھی استطاعت ہے تاہم اسرائیل اونروا کو اجازت نہیں دے ریا۔ منگل سے غزہ  ہیومینیٹیرین ریلیف کے نام ایک ادارے نے کام شروع کیا ہے جو اسرائیلی اور امریکی مشترکہ ادارہ ہے جس کے بارے اب تک متعدد ماہرین کہہ چکے ہیں کہ یہ اسرائیل کی سویلین کنٹرول کا ادارہ ہے، جس کا قیام امداد کی تقسیم کے بجائے اسرائیلی کی سیکورٹی مضبوط کرنا ہے۔ تاہم یہ ادارہ بھی امداد کی تقسیم میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔