قربانی کا فریضہ اور قادیانیوں کا فریب: ایمان کی سرحدوں پر خاموش حملہ

تحریر: محمد اسامہ پسروری

اسلام کی ہر عبادت صرف ظاہر کا نام نہیں بلکہ عقیدے اور نیت کی صداقت اس کا جوہر ہے۔ نماز ہو، روزہ ہو یا قربانی اگر عقیدہ درست نہ ہو تو ظاہری عمل کا کوئی وزن نہیں۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ سنت ہے جسے امتِ محمدیہ میں شعورِ بندگی، تسلیم و رضا اور توحید پر جان نچھاور کرنے کی علامت کے طور پر زندہ رکھا گیا۔ لیکن جب یہ عبادت ایک ایسے فرقے کے ہاتھوں انجام پائے جو نہ تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہے، نہ اسلام کے بنیادی عقائد کو تسلیم کرتا ہے، تو وہ عبادت نہیں رہتی، بلکہ امت کے شعائر پر ایک سنگین حملہ بن جاتی ہے۔
قادیانی جو ریاستِ پاکستان کے آئین کے مطابق غیر مسلم اقلیت ہیں، لیکن اپنے آپ کو “مسلمان” کہہ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، اُن کی طرف سے قربانی جیسے مقدس فریضے کی انجام دہی، سراسر فریب ہے۔ یہ فریب نہ صرف عام مسلمان کو دھوکہ دیتا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی نظریے یعنی ختمِ نبوت کو چیلنج کرنے کی ایک منظم سازش ہے۔ جب ایک شخص خود کو مسلمان ظاہر کرے، اسلامی وضع قطع اپنائے، جانور قربان کرے، گوشت تقسیم کرے اور ساتھ ہی مرزا غلام احمد قادیانی کو “نبی” بھی مانے، تو یہ صرف ایک جھوٹ ہی نہیں، بلکہ پورے دینِ اسلام سے کھلا استہزا ہے۔
یہ کوئی سادہ عمل نہیں کہ قادیانی بھی قربانی کرتے ہیں۔ یہ ایک تہہ در تہہ منصوبہ ہے جس کے پیچھے امت کے ایمان پر ضرب لگانے کی سازش کار فرما ہے۔ قادیانی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں قربانی، رمضان، حج اور دیگر شعائرِ اسلام کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ وہ انہی شعایر کی آڑ میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں، تاکہ سادہ لوح مسلمان ان کے دھوکے میں آ کر انہیں مسلمان سمجھنا شروع کر دیں۔ یہی وہ فکری خطرہ ہے جسے ہم نے آج تک سنجیدگی سے نہیں لیا۔ قربانی محض گوشت کاٹنے کی رسم نہیں، بلکہ اسلام کی سرحد پر کھڑے ہو کر بندگی کا علم بلند کرنے کا نام ہے۔ جب قادیانی اس عمل کو انجام دیتے ہیں تو وہ اصل میں مسلمانوں کی عقیدے کو ہتھیانے اور “ختم نبوت” کے قلعے میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ قربانی نہیں، ایک ہتھیار ہے۔ جس سے وہ معاشرے کے اندر اپنی شناخت کو دھیرے دھیرے عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جانور ذبح کرتے ہیں، لیکن اصل میں وہ “عقیدۂ ختم نبوت” کو ذبح کر رہے ہوتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ کئی مسلمان آج بھی اس فتنے کی شدت کو نہیں سمجھ پائے۔ وہ قربانی کے پیسے ایسے اداروں کو دے بیٹھتے ہیں جن کے پسِ منظر میں قادیانیت کا سایا ہوتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر قادیانیوں کی قربانی کی تصاویر دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ شاید وہ بھی “امت” کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قربانیاں اللہ کے حضور ناقابلِ قبول، مردود اور قابلِ مذمت ہیں۔ یہ اعمال، شریعت کے پیمانے پر عبادت نہیں بلکہ کھلی نافرمانی، کھلا فریب اور کھلی گمراہی ہیں۔
اس لیے ہم قربانی کی اصل روح کو پہچانیں اور قادیانیوں کی ان چالاکیوں سے ہوشیار ہو جائیں۔ مساجد، مدارس، واعظین اور دینی طبقے کو چاہیے کہ عوام الناس میں یہ شعور عام کریں کہ قادیانیوں کی طرف سے انجام دی جانے والی کوئی بھی عبادت، اسلامی عبادت نہیں کہلا سکتی، کیونکہ ان کا عقیدہ، ان کا ایمان، اور ان کی بنیاد ہی اسلام سے منحرف ہے۔ حکومتِ وقت پر بھی فرض ہے کہ وہ قانوناً ان تمام افراد یا اداروں کے خلاف سخت اقدام کرے جو قربانی کے نام پر قادیانیوں کو راہ دیتے ہیں۔

یاد رکھیں! قربانی ایمان کے قلعے پر ایک پرچم ہے۔ اس پرچم کو کسی ایسے ہاتھ میں نہیں جانے دینا چاہیے، جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تو سایہ کرنا چاہے، مگر مرزا غلام قادیانی کو “نبی” مانتا ہو۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی تو کل ہماری نسلیں یہ فرق بھول جائیں گی کہ اسلام کیا ہے اور قادیانیت کیا ہے۔ یہ صرف قربانی کا مسئلہ نہیں، یہ ایمان کی بقا کا مسئلہ ہے۔