غزہ میں قحط ۔ بھوک زندگیاں نگلنے لگی!

رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
غزہ میں قحط اور بھوک اپنی آخری حدوں کو چھونے کے بعد اب تیزی سے زندگیاں نگلنے لگی ہے۔ 24 گھنٹوں میں 26 فلسطینی شہید ہوگئے، جن میں 9 معصوم بچے بھی شامل، 65000 بچے موت کی دہلیز پر ہیں۔ 80 روز میں 326 فلسطینی بھوک سے شہید اور 300 سے زائد خواتین کا اسقاط حمل ہوچکا ہے۔
تفصیلات کے مطابق غزہ کی مظلوم زمین آج ایک بار پھر اپنے نہتے باسیوں کے دکھوں کی گواہ بنی ہے، جہاں قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی سنگدلانہ بھوک کی جنگ نے صرف 80 دنوں میں 326 قیمتی فلسطینی جانیں نگل لیں۔ ان میں وہ بزرگ بھی شامل ہیں جنہوں نے صبر سے زندگی گزاری تھی، وہ مریض جنہیں دوائی کی امید تھی اور وہ مائیں جو اپنی کوکھ میں زندگی کی رمق لے کر امید سے تھیں، مگر بھوک اور دوا کی کمی نے ان کی گود اجاڑ دی۔ 300 سے زائد خواتین نے حمل ضائع ہونے کا کرب سہا، جن کے لیے غزہ کی گھٹن ایک قبرستان سے کم نہ رہی۔
غزہ کے سرکاری دفتر برائے اطلاعات نے منگل کو ایک دل دہلا دینے والی رپورٹ میں بتایا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے مسلسل 80 دن سے غذائی اجناس، ادویات اور ایندھن کی مکمل بندش نے انسانی المیے کو بے رحم حدوں تک پہنچا دیا ہے۔ دفتر نے اس انسانی تباہی کو کھلی نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جرم پوری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے اور 24 لاکھ سے زائد محصور فلسطینیوں کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2 مارچ 2025ء کے بعد سے قابض اسرائیل نے ایک بھی امدادی ٹرک یا ایندھن کی گاڑی کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ کم از کم 44 ہزار امدادی ٹرکوں کی فوری ضرورت تھی تاکہ شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ تمام داخلی راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں، جو انسانی حقوق، عالمی قوانین اور بین الاقوامی اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دفتر کے مطابق 58 فلسطینی شہری غذائی قلت کا شکار ہو کر شہید ہو چکے ہیں جبکہ 242 افراد دوا کی عدم دستیابی کے باعث جان سے گئے، جن میں زیادہ تر ضعیف العمر افراد شامل ہیں۔ 26 گردوں کے مریض بھی مناسب غذا اور نگہداشت نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان ہار بیٹھے۔ 300 سے زائد حاملہ خواتین نے غذائی قلت کے سبب اپنے بچوں کو کھوکھ میں ہی کھو دیا۔
سرکاری دفتر برائے اطلاعات و نشریات نے اس صہیونی سفاکیت کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو مخاطب کیا اور کہا کہ وہ اپنی مجرمانہ خاموشی ترک کرے۔ وقت آ چکا ہے کہ دنیا اپنے ضمیر کی آواز سنے، تمام راستے کھولے جائیں، غذا، دوا اور ایندھن غزہ میں داخل کیا جائے تاکہ مزید معصوم جانوں کو بچایا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کو روزانہ کم از کم 500 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں درکار ہیں تاکہ طبی مراکز اور زندگی کے دیگر شعبے بحال ہو سکیں۔ دفتر نے عالمی فوجداری عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل کے مجرم لیڈروں کو بین الاقوامی قانون کے کٹہرے میں لائیں اور اس نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اقدام کریں۔
قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ 18 مارچ 2025ء سے قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پر نئے فضائی حملے شروع کر دیے، جن میں بارہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ حملے اس جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو امریکا، مصر اور قطر کی ثالثی سے طے پایا تھا۔ قابض اسرائیل جو 7 اکتوبر 2023ء سے امریکی سرپرستی میں غزہ میں نسل کشی میں مصروف ہے، اب تک ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید و زخمی کر چکا ہے۔ ان میں اکثریت عورتوں اور معصوم بچوں کی ہے جبکہ 14 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ’یورومیڈ‘ نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں غزہ میں بھوک کی وجہ سے 26 فلسطینی شہید ہو گئے، جن میں 9 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ ان جانوں کے ضیاع کا سبب اسرائیل کی طرف سے جاری بھوک اور علاج سے محرومی کی پالیسی ہے، جس کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطینیوں کی موت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ہولناک صورتحال اسرائیل کی جانب سے دانستہ طور پر فلسطینیوں کو نیست و نابود کرنے کی منظم مجرمانہ پالیسی کا نتیجہ ہے، جس میں جان بوجھ کر کھانا بند کیا جا رہا ہے، شدید تکلیفیں پیدا کی جا رہی ہیں اور صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کا مکمل محاصرہ بھی جاری ہے، جو فلسطینیوں کے لئے زندگی کو مزید اجیرن بنا رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ غزہ میں وزارت صحت کی جانب سے ان اموات کی مانیٹرنگ کا کوئی مو¿ثر طریقہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان اموات کو قدرتی موت کے طور پر ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
ادارے کے فیلڈ ٹیم نے دردناک گواہیاں جمع کی ہیں جن میں بتایا گیا کہ بزرگ افراد نے حالیہ دنوں میں بھوک کے مارے ہونے کے باوجود زبردستی پناہ گزینی کی اور یہ تمام افراد انتہائی حالت میں مدد کے منتظر تھے۔ انسانی حقوق گروپ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ قابض اسرائیل کی جانب سے جو انسانی امداد غزہ بھیجنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، وہ حقیقت میں غزہ تک نہیں پہنچی اور اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی حکام جو امدادی سامان بھیجنے کی اجازت دینے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ محض غزہ کی اس سنگین صورتحال میں ایک بے کار کوشش ہے، جو روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ مسلسل بمباری اور انسانی المیہ کی شدت نے غزہ میں موجود شہریوں کی حالت کو مزید نازک کر دیا ہے اور ان کا ذخیرہ شدہ کھانا بھی ختم ہورہا ہے۔ یورومیڈ نے غزہ میں انسانیت کی تباہی کو ایک آفت سے تعبیر کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری طور پر مداخلت کی درخواست کی ہے۔ ادارے نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں اور اسرائیل پر اقتصادی، سفارتی اور فوجی پابندیاں عائد کریں، تاکہ فلسطینی عوام کے خلاف اس سنگین خلاف ورزیوں کا سدباب ہو سکے۔
امداد بحالی کے اسرائیلی دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے یورو میڈیٹریرین ہیومن رائٹس واچ کے سربراہ رامی عبدہ نے انکشاف کیا کہ پیر کے روز صرف 5 گاڑیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ ان پانچ امدادی گاڑیوں میں سے دو ایسی تھیں جو کھانے پینے یا دوا کے بجائے کفن سے لدی ہوئی تھیں۔ یہ کفن ایک عرب ملک نے اقوام متحدہ کے ذریعے بھیجے جو اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو زندہ رکھنے کے بجائے دفنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ رامی عبدہ نے کہا کہ کفن کوئی انسانی امداد نہیں بلکہ اجتماعی موت کی پیشگی تیاری ہے۔ یہ غزہ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو خوراک پہنچانے کی نہیں قبریں کھودنے کی مہم ہے۔