عرب لیگ کا سربراہ اجلاس بھی ناکام ، غزہ میں اسرائیل نے فیصلہ کن آپریشن شروع کردیا

رپورٹ: علی ہلال
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیج سے اڑان بھرتے ہی غزہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اسرائیل کی قابض حکومت نے غزہ میں وسیع ترین فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے غزہ کی پوری پٹی پر ٹنوں کے حساب سے بارود برسانے کا وحشیانہ عمل شروع کردیا ہے۔

اسرائیلی فوجی ترجمان افیخائی ادرعی نے میڈیا کو بتایا کہ اس آپریشن کے دوران غزہ کی مکمل پٹی پر کنٹرول قائم کیاجائے گا۔ جس کےلئے مکمل غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو جمع کرکے رفح میں لایا جائے جس اور بعد میں عیاں سے رامون ائیر پورٹ کے پاس لے جایا جائے گا۔ خیال رہے کہ رامون ہوائی اڈہ ایلات شہر سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر صحرائے نقب کے جنوب میں واقع ہے جسے ایلات ائیر پورٹ کے متبادل کے طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے پیش نظر غزہ کی صورتحال پر نظر رکھنے والے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر غزہ کے باشندوں کی ملک سے بے دخلی میں اسرائیل کامیاب نہ ہوا تو انہیں صحرائے نقب میں رکھیں گے اور غزہ کی پٹی کو خالی کردیں گے۔ آپریشن عربات جدعون کے نام سے جاری اس آپریشن کے نام سے جاری ہے۔ جس میں اسرائیل نے انتہائی بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام سول ڈیفنس اور وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات سے اسرائیلی حملوں میں قریب 250 افراد شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے دو ماہ کے سیزفائر کے خاتمہ کے بعد مارچ سے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل روک رکھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا کہ غزہ میں کئی لوگ بھوکے پیاسے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کا آپریشن اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک حماس کا خطرہ نہ ٹل جائے اور تمام یرغمالی واپس نہ آجائیں۔ اس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں دہشت گردی کے 150 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔غزہ میں جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے عالمی دباو کے باوجود اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے۔ اس نے سرحد کے قریب فوجی دستوں کو الرٹ کیا ہے۔ آپریشن کے اعلان سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ جنگ بندی اور مذاکرات کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ اخبار ٹائمز آف اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے تحت اسرائیلی فوج غزہ کے کئی علاقوں پر قبضہ کرے گی، عام شہریوں کو جنوبی غزہ منتقل کیا جائے گا، حماس پر حملے کیے جائیں گے اور حماس کی جانب سے امدادی سامان پر قبضے کو روکا جائے گا۔ رواں ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں کئی علاقوں پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے۔ ان کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ آپریشن ٹرمپ کا دورہ مشرق وسطیٰ مکمل ہونے کے بعد شروع کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ جمعے کو ہی یہ دورہ مکمل کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے چیف وولکر ٹرک نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے تناو میں حالیہ اضافے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد دو مارچ سے غزہ میں کسی قسم کی انسانی امداد نہیں پہنچ سکی، جبکہ عالمی سطح پر بھوک پر نظر رکھنے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی یعنی تقریباً پانچ لاکھ افراد قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس پر امدادی سامان چوری کر نے کا الزام عائد کررہی ہے، جس کی حماس تردید کرتی ہے۔ اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل اس وقت تک بند رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے، جب تک حماس تمام مغویوں کو رہا نہیں کر دیتی۔
سات اکتوبر 2023ء کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں شہداءکی مجموعی تعداد اب 53,010 تک پہنچ گئی ہے۔ہفتہ 17 مئی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں عرب ممالک کی علاقائی تنظیم عرب لیگ کا 34 واں سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں بائیس عرب ممالک میں سے صرف پانچ ممالک کے سربراہان شریک ہوئے باقی ممالک کے سربراہان نے اپنی نمائندگی کے لئے نچلے درجے کے وفود بھیجے کر فریضہ نبھانے پر اکتفا کردیا۔ عرب میڈیا کے مطابق قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سربراہ اجلاس میں خطاب کیے بغیر چلے گئے۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور عمان سمیت دولت مند ممالک کے سربراہان شریک نہیں ہوسکے۔ حالانکہ اس سربراہ اجلاس کا مقصد ہی غزہ ایشو پر بات چیت کرکے عرب ممالک کے موقف کو سامنے لانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ عرب لیگ سربراہ اجلاس میں مصری صدر عبد الفتاح السیسی ، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس ، صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمد اور امیر قطر شریک ہوسکے۔ تجزیہ کاروں کے اسرائیل کو امریکی صدر کے حالیہ دورہ خلیج سے غیر معمولی حوصلہ ملاہے۔ اسرائیل کو اندازہ ہوگیا ہے کہ خلیج کے دولت مند ممالک کی غزہ معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ سب امریکا کے ساتھ تعلقات کے قیام کےلئے سرگرم ہیں، ان کی اولین ترجیح یہی ہے۔ جس سے حوصلہ پاکر اسرائیل نے عین اسی دن آپریشن کا اعلان کردیا جس روز امریکی صدر خلیج کے دورے سے واپسی کے لئے روانہ ہوگئے۔ یہ تین روز کے دوران عرب ممالک کا دوسرا اجلاس ہے لیکن غزہ کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہی ہیں۔