قدرتی آفات نے اسرائیل کا ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ بے نقاب کردیا

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیل ایک بے بس ریاست ہے جس کی طاقت کے من گھڑت قصے میڈیا اور بعض مصنفین کی مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ مبینہ ناقابل تسخیر ریاست کی طاقت کے سارے راز سات اکتوبر کے بعد بے نقاب ہوگئے تھے تاہم غزہ قتل عام میں مغربی دنیا کی کھلی حمایت ،تعاون اور مدد نے صہیونی ریاست کو فیس سیونگ کا موقع فراہم کیا۔
غزہ میں بچوں اور خواتین کا قتل عام کرکے اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کی برتری باور کروانے کی کوشش کی ہے لیکن قدرتی آفات نے اسرائیل کی اندرونی کمزوریوں کا پول اچھی طرح کھول دیا ہے،جس سے یہ تاثر زائل ہوگیا ہے کہ اسرائیل ایک ناقابل تسخیر ریاست ہے۔رواں ماہ کے شروع میں اسرائیل کے مقبوضہ علاقے القدس کے شمالی پہاڑوں میں لگنے والی آگ نے اسرائیلی صلاحیتوں کا ٹیسٹ لے لیا، جس میں ہائی ٹیکنالوجی کے حامل یہودی ریاست کو مکمل طور پر بے نقاب کردیا ہے۔ آگ کے دوران ظاہر ہوا کہ اسرائیل کے پاس پیشگی اطلاعات کا انتظام نہیں تھا۔ آگ پر قابو پانے کےلئے آلات ناکافی تھے اور لاجسٹک سپورٹ بھی نہیں تھی۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کو امریکا کے لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے دوران خبردار کیا گیا تھا کہ ایسا ہی حادثہ عنقریب اسرائیل میں بھی سامنے آسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود صہیونی ریاستی انتظامیہ کچھ نہیں کرسکی۔ اسرائیل میں آگ لگنے کے بعد جب ضروری آلات اور لاجسٹک سپورٹ کی کمی دیکھی گئی تو عوام نے سڑکوں پر نکل کر نہ صرف خود کو بچانے کی اپنی مدد آپ کوشش کی بلکہ اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کی۔
اسرائیل میں 23 اپریل کو جنگلات میں آگ لگی تھی جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی اور مئی کے ابتدائی ایام میں غیر معمولی شکل اختیار کرگئی۔ تباہ کن آگ کی لپیٹ میں 24 ہزار دونم اراضی آکر جھلس گئی ہے۔ اسرائیل میں ایک سو مقامات پر آگ لگی تھی جس میں اللد، القدس، عسقلان اور بئر شامل ہیں۔ ان تمام علاقوں میں لگنے والی آگ نے غیر معمولی تباہی مچائی۔ بیشتر ہائی ویز بند ہوگئیں۔ درجنوں آبادکار کالونیاں اور کیبوٹس خالی کردیے گئے۔ تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز اور مالز بند ہوگئے۔ لوگ سڑکوں پر گاڑیوں چھوڑ کر فرار ہوگئے جس کے باعث اسرائیلی حکومت کو فوج اور پولیس کی مدد لینی پڑی۔ اسرائیل ایک ایٹمی ملک ہے۔ مشرق وسطی کی مضبوط ترین دفاعی قوت کے حامل ہونے کا دعویدار ہے۔ گزشتہ چند سال قبل اسرائیل قدرتی آفات بالخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کو اپنی قومی سلامتی کےلئے خطرہ قرار دے چکاہے۔ بالخصوص آگ لگنے کے واقعات اسرائیل کےلئے ایک بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے۔ اسرائیل فائر بریگیڈ کو سیکورٹی کا حصہ قرار دے چکا ہے۔ کسی کو گھر کی چھت پر آگ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس نوعیت کی درجنوں پابندیوں کااسرائیلی باشندوں کو سامنا ہے لیکن اس کے باوجود حالیہ آگ میں اسرائیل کے پاس ضروری تیاری مکمل نہیں تھی۔ اسرائیل کے پاس قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کے انتہائی جدید ترین اور ایڈوانس آلات اور ٹیکنالوجی موجود ہے، لیکن یہ سب ناکام رہے جس کے باعث اسرائیل کو اندرونی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اسرائیلی اداروں کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست کے پاس آگ بجھانے والے طیارے بہت پرانے ہوچکے ہیں۔ اسرائیل میں قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے بجٹ کی کمی کا ہمیشہ رونا رویا جارہاہے۔ اس اندرونی کمی اور کمزوریوں نے اسرائیل کو سات ممالک سے مدد طلب کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے یونان، قبرص، کروشیا، اٹلی، سربیا، کینیڈا اور رومانیہ سے تعاون طلب کرلیا۔ اسرائیل میں درجہ حرارت میں ہوتا اضافہ، تیز ہواوں کی چلن اور خشکی وہ عوامل ہیں جو یہودی ریاست کے لیے دردسر بنے رہتے ہیں۔ گاڑی سے کسی نے سگریٹ بھی پھینک دی تو چلتی ہواو¿ں کے باعث وہ شعلہ بن کر آگ بھڑکا سکتا ہے۔ اسرائیل میں سال 2024ء اور 25ء میں شدید خشک سالی تھی جس کے باعث آگ لگنے کے خطرات زیادہ ہیں، لیکن اسرائیلی وزرا خاموش بیٹھے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرتے، جس پر اسرائیل میں اندرونی سطح پر شدید احتجاج ہوا ہے۔ اس وقت اسرائیل کے نیشنل سکیورٹی وزیر ایتمار بن غفیر کو شدید تنقید کا سامناہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اسرائیل آگ بجھانے کے لیے طیارے خرید رہا تھا جس کی خریداری بن غفیر یہ کہہ کر روک دی کہ یہ مہنگے ہیں اور ہم کم قیمت والے ہیلی کاپٹر خرید لیں گے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کے سابق مشیر تومار لوتان کی اس معاملے پر بن غفیر کے ساتھ سخت منہ ماری بھی ہوئی تھی لیکن بن غفیر نہیں مانے تھے۔
خیال رہے کہ جنوری میں لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جبکہ امریکا کو دولاکھ باشندے بے دخل کرنا پڑ گئے تھے، جس کے بعد اسرائیلی اداروں نے بھی رپورٹیں دی تھیں کہ اسرائیل میں بھی ایسی آگ بڑھ سکتی ہے۔ اسرائیل میں تباہ کن آگ کے بعد اداروں نے بغیر کسی ثبوت و شواہد کے فلسطینیوں پر الزام عائد کیے اور کئی فلسطینیوں کو اسرائیلی پولیس گرفتار کرچکی ہے۔ بن غفیر نے اس کے باوجود بھی فائر بریگیڈ کی بجٹ میں کمی کی ہے۔ آگ لگنے کے باعث اسرائیل میں مختلف حوالوں سے بحث شروع ہوگئی ہے۔ بعض طبقے اسے اللہ کی جانب سے عذاب قرار دے ہیں۔اسرائیل میں گزشتہ چالیس برس کے دوران متعدد بار آگ لگ چکی ہے۔ 1995ء میں اسرائیل کو چالیس ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا جبکہ دو ملین درخت جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ اس سے قبل 2010ء میں اسرائیل کو آگ لگنے سے تاریخ کا بڑا نقصان ہوا تھا۔ جب آگ لگنے کے نتیجے میں44 افراد جان کی بازی ہارگئے تھے۔ 25 ہزار ہیکٹر اراضی جل گئی تھی۔ کئی ملین درخت جل گئے تھے اور ہزاروں افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔ اِس سے قبل 1989ء، 2012ء اور 2016ء میں اسرائیل قدرتی آگ کی لپیٹ میں آیا ہے لیکن صہیونی ریاست جتنی توجہ بارود اور بموں پر دیتی ہے اس کا عشر عشیر بھی قدرتی آفات سے متعلق ضرورت پر نہیں دیتی، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔