سائنس دانوں نے ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ہماری کائنات اپنی مکمل تباہی کی جانب ہماری توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انسان کائنات کی وسعت، اس کی تخلیق اور ممکنہ انجام کے بارے میں جاننے کے لیے مسلسل تحقیق کر رہا ہے۔
کائنات کا اختتام: پہلے کیا سمجھا جاتا تھا؟
ماضی میں سائنس دانوں کا ماننا تھا کہ ہماری کائنات کے پاس کم از کم 10^1100 (ایک کے بعد 1100 صفر) سال باقی ہیں، جس کے بعد تمام ستارے، سیارے، اور دیگر اجسام بالآخر ختم ہو جائیں گے۔ یہ دورانیہ اس قدر طویل ہے کہ اس کا تصور کرنا بھی انسانی عقل کے لیے مشکل ہے۔
اس نظریے کی بنیاد اس تصور پر تھی کہ صرف بلیک ہولز ہی Hawking Radiation کے عمل کے ذریعے آہستہ آہستہ بخارات بن کر ختم ہوں گے، جب کہ باقی اجسام وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوں گے بلکہ ایک ساکت حالت میں موجود رہیں گے۔
نئی تحقیق کیا کہتی ہے؟
تاہم 2023 کے ایک سائنسی مقالے کے تسلسل میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق میں اس نظریے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب صرف بلیک ہولز ہی نہیں بلکہ دیگر فلکی اجسام بھی Hawking Radiation جیسے ایک عمل کے ذریعے بخارات بن کر ختم ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو “Quantum Tunneling” سے تشبیہ دی گئی ہے، جو ایک کوانٹم میکینزم ہے۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنس دان کی رائے
تحقیق کے مرکزی مصنف اور مشہور بلیک ہول ماہر ہینو فیلکے (Heino Falcke) کا کہنا ہے کہ نئی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کائنات کا حتمی اختتام ہماری پرانی سوچ سے کہیں پہلے ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسانیت کو فوری طور پر کسی خطرے کا سامنا نہیں، کیونکہ اس خاتمے میں ابھی بھی کئی کھرب کھرب سال باقی ہیں۔
ان کے مطابق کائنات کا اختتام تقریباً 10^78 سال بعد ہو سکتا ہے، جو کہ اب بھی ایک ناقابلِ تصور حد تک طویل وقت ہے، لیکن یہ پہلے کی تخمینہ شدہ مدت سے کہیں کم ہے۔
سفید بونے ستارے (White Dwarfs) کب ختم ہوں گے؟
تحقیق میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ سب سے طویل عرصہ تک زندہ رہنے والے ستارے، جنہیں سفید بونے (White Dwarfs) کہا جاتا ہے، بھی بالآخر ختم ہو جائیں گے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ عمل اتنا سست ہوگا کہ ہمیں اس کا براہِ راست مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن نظریاتی طور پر ان کا بھی انجام یقینی ہے۔
کیا انسان کو ڈرنے کی ضرورت ہے؟
ہینو فیلکے نے اطمینان دلایا ہے کہ اگرچہ کائنات کے انجام کا وقت ہمارے تخمینے سے کم نکلا ہے، لیکن یہ وقت اب بھی اتنا زیادہ ہے کہ انسانی تہذیب کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ تحقیق محض کائنات کے فطری اصولوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کی گئی ہے۔
نتیجہ
اس تحقیق نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ ہماری کائنات ایک متحرک، پیچیدہ اور مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ جہاں پہلے ہم صرف بلیک ہولز کے بخارات بننے کو کائناتی انجام سمجھتے تھے، اب ہمیں یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ دیگر فلکی اجسام بھی اس عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ گو کہ یہ سب کچھ اربوں کھربوں سال بعد ہوگا، لیکن سائنس اس عمل کو آج سے سمجھنا شروع کر چکی ہے — تاکہ ہم نہ صرف اپنے ماضی بلکہ اپنے دور ترین مستقبل کو بھی بہتر طور پر جان سکیں۔