ٹرمپ کا دورہ مشرقِ وسطیٰ، اسرائیل کو شامل نہ کرنے پر سوالات اُٹھ گئے

رپورٹ: علی ہلال
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو دن قبل منگل کو سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ یہ بیس جنوری کو ان کی حلف برداری کے بعد مشرق وسطی کا پہلا دورہ ہے جس میں سعودی عرب کے ساتھ قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں بھی 2017ء میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ حالیہ دورے میں امریکی صدر قطر، سعودیہ اور امارات کے ساتھ متعدد علاقائی امور ، سکیورٹی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
بدھ کے روز ایک مشترکہ امریکی‘خلیجی سربراہی اجلاس منعقد ہو ا، جو امریکا اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان پانچواں اجلاس رہا۔اس سے قبل چار سربراہی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ پہلا اجلاس مئی 2015ء میں کیمپ ڈیوڈ میں ہوا تھا، دوسرا اپریل 2016ء میں، تیسرا مئی 2017ء میں سعودی دار الحکومت ریاض میں صدر ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران اور چوتھا اجلاس جولائی 2022ء میں ہوا تھا جس میں مصر، اُردن اور عراق سمیت عرب ممالک نے بھی شرکت کی تھی۔ سعودی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کا ریاض کا یہ دورہ اس بات کا عندیہ ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو خطے میں بلند جغرافیائی و سیاسی مقام حاصل ہوچکا ہے اور ان کا اقتصادی وزن بھی نمایاں ہوچکا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے کل اعلان کیا کہ اس دورے میں خطے کے سلامتی کے مسائل، دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور قابلِ تجدید توانائی جیسے تزویراتی امور زیرِ بحث آئیں گے۔ ٹرمپ کا دورہ خلیج ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان میں بالخصوص غزہ پر اسرائیلی جنگ، ایران‘امریکا مذاکرات، خطے میں ’ایرانی محور‘ کی کمزوری اور ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان پس پردہ تناو شامل ہے۔ عرب خطے کے اُمور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے میں اسرائیل کو شامل نہ کرنے کے امریکی فیصلے نے اسرائیل کے اندر بعض سوالات کو جنم دیا ہے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق بعض اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے قیدیوں کی رہائی کے لیے کافی کوشش نہیں کی جبکہ دیگر کو اندیشہ ہے کہ امریکی صدر نیتن یاہو پر بعد میں دباو ڈال سکتے ہیں تاکہ وہ ایسا معاہدہ تسلیم کریں جو غزہ میں جنگ کو ’حماس کی مکمل شکست‘ سے پہلے ہی ختم کر دے۔ یہ بات امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے بتائی۔
یوئیل جوزانسکی جو اسرائیلی قومی سلامتی کونسل میں خلیجی امور کے ماہر رہ چکے ہیں اور اب تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت خطے میں اسرائیلی مفادات سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق امریکا اس وقت خطے میں ایک ایسا منظرنامہ ترتیب دے رہا ہے جس میں لازماً اسرائیل شامل نہیں۔اسی حوالے سے بیت المقدس میں قائم اسرائیلی ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ یوحنان پلیسنر نے کہا کہ ٹرمپ کے اسرائیل کا دورہ نہ کرنے کا مطلب دونوں ملکوں کے تعلقات کا خاتمہ نہیں، تاہم یہ ضرور واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ امریکا کے صدر ہیں، اسرائیل کے نہیں۔بعض ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ٹرمپ اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں بیت المقدس یا تل ابیب کا بھی رخ کریں گے، لیکن صدر نے خود گزشتہ ہفتے کہا کہ ان کا اسرائیل کا کوئی پروگرام نہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جنگ بندی یا انسانی امداد سے متعلق کوئی بڑی پیش رفت ہوتی تو شاید ٹرمپ اسرائیل کی شمولیت پر غور کرتے۔
یہ سوالات اور خدشات اُن اسرائیلی رپورٹوں کے بعد اٹھے ہیں جن کے مطابق ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان ایران کے جوہری معاہدے، غزہ کی صورت حال اور امریکا اور حوثیوں کے درمیان حالیہ معاہدے پر اختلافات موجود ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب میں ایک دوسرا سوالیہ معاملہ یہ سامنے آیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے دورہ مشرق وسطیٰ میں صدارتی طیارے میں بڑے اعلامی اداروں بلومبرگ ،ایسوسی ایٹڈ پریس اور روئٹرز کے صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی، جس پر امریکا میں احتجاج ہواہے اور اس دورے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔الجزیرہ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دورہ مختلف ہے۔ 2017ء میں سعودی عرب سے واپسی پر ٹرمپ نے اسرائیل کا بھی دورہ کیا تھا۔ رواں برس فروری میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن پہلے غیرملکی سربراہ تھے جس نے امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اپریل میں اسرائیلی وزیراعظم نے وائٹ ہاوس کا دوسرا دورہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ تاہم بعد میں غزہ میں جاری جنگ میں حوثی باغیوں کے ساتھ جنگ بندی معاہدے اورایران کے جوہری پروگرام پر ایران امریکا مذاکرات پر اسرائیل اور امریکا کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔
تاہم خطے کے امور پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آسکتی ہے لیکن اسرائیل کے مفادات کو واشنگٹن کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کرسکتا۔