غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے،کلسٹربموں کا استعمال،70شہید

ٰغزہ/ریاض/نیویارک/بیروت:اسرائیلی فوج کی نہتے فلسطینیوں پر بمباری جاری،70شہید،درجنوں زخمی ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس پر اسرائیلی فوج نے شدید بمباری کی جس کے نتیجے میں 28 فلسطینی شہید اور 70 سے زائد زخمی ہو گئے۔

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے یورپی ہسپتال کے احاطے میں 9 بنکر بسٹر بم گرائے جن کے دھماکوں سے زمین پھٹ گئی اور اسپتال کے قریب کھڑی ایک بس زمین میں دھنس گئی۔اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حملے کا ہدف حماس کے رہنما تھے جو مبینہ طور پر ہسپتال کے نیچے بنے زیرِ زمین کمانڈ اینڈ کنٹرول کمپلیکس میں موجود تھے۔

فلسطینی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حملے میں حماس کے معروف رہنما یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔اسرائیلی فوج کی بمباری زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے والوں پر بھی کی گئی جس سے شہادتوں میں مزید اضافہ ہوا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین دھنسنے اور بم دھماکوں سے علاقہ لرز اٹھا، ہسپتال کے اندر اور اطراف خوف و ہراس پھیل گیا۔ادھرخان یونس کے علاقے فخاری میں قابض اسرائیلی افواج نے ابو امونہ خاندان کے گھر پر بمباری کی جس میں ایک ہی خاندان کے 9 افراد شہید ہو گئے جن میں والد بشیر، والدہ بدور ان کے بچے محمود، منیر، آیہ، ملک، بلال اور تین کمسن بچے جود، زینب اور بسان شامل ہیں۔

جبالیہ کے مغرب میں اسکول ابو حسین اور شارع العجرمہ کے اردگرد گھروں پر بمباری کی گئی۔خان یونس کے علاقے المواصی میں ابو غنام خاندان کی خیمہ گاہ پر بمباری سے ایک اور خاندان مکمل طور پر شہید ہو گیا۔

شہداء میں معتز صبح الغنام، ان کی اہلیہ دعاء یعقوب اور ان کی دو ننھی بیٹیاں جنی اور مریم شہید ہو گئیں۔فخاری میں بھی ایک اور گھر نشانہ بنا جب کہ عبسان الکبری میں ڈرون حملے سے تین شہری زخمی ہوئے۔غزہ کے الزیتون محلے کے الشمعہ علاقے میں ایک اسرائیلی ڈرون (کواڈ کاپٹر) نے گھروں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے مزید نقصان ہوا۔

دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت نے بدھ کے روز اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جاری نسل کشی کے نتیجے میں 70 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ 7 اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل کی جانب سے جاری اجتماعی نسل کشی کے نتیجے میں شہداء کی مجموعی تعداد 52,928 ہو چکی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 119,846 تک جا پہنچی ہے۔

وزارت صحت نے مزید بتایا کہ 18 مارچ 2024ء سے قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگی جنون دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 2,799 فلسطینی شہید اور 7,805 زخمی ہو چکے ہیں جس کے بعد گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مجموعی شہداء و زخمیوں کی تعداد 1,72,774 تک پہنچ چکی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اس وقت مشرق وسطیٰ کے دورے پرہیں، نے حملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے عوام ایک بہتر مستقبل کے حقدار ہیں، یہ ڈراؤنا خواب ختم ہونا چاہیے، میں دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہوں۔ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں اور دہشت گردی کے باعث خطے میں بے گناہ لوگوں کی جانوں کا ضیاع ناقابلِ برداشت ہے۔

دریں اثناء اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ ”القسام بریگیڈز” نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں قابض اسرائیلی فوج کے خلاف کیے گئے ایک منظم اور پیچیدہ حملے کی ویڈیو جاری کر دی ہے۔القسام نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر جاری بیان میں بتایا کہ یہ کارروائی ابواب الجحیم (دوزخ کے دروازے) نامی سلسلہ وار حملوں کا حصہ ہے جس کے دوران قابض اسرائیلی فوج کی ایک نفری کو مشرقی رفح کے التنور محلے میں گھات لگا کر نشانہ بنایا گیا۔

یہ کارروائی 8 مئی کو انجام دی گئی اور ویڈیو مناظر میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی گھر کو دھماکے سے اْڑانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک گولے اور خودکار ہتھیاروں سے ان پر شدید حملہ کیا گیا۔

ویڈیو کے مطابق یہ حملہ شارع 18 پر پیش آیا جہاں پہلی کارروائی میں قابض اسرائیل کی انجینئرنگ ٹیم کو نشانہ بنایا گیا جو گھر کو بم سے اڑانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ انہیں افراد اور بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے والے اسلحے سے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔

دوسری کارروائی میں پیدل اسرائیلی دستے کو ایک طاقتور بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ان میں سے متعدد موقع پر ہی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔علاوہ ازیںفلسطینی عوام پر ڈھائے گئے اسرائیلی مظالم کے جواب میں اسلامی جہاد کے عسکری ونگ ”سرایا القدس” نے شام عسقلان، اسدود اور غلافِ غزہ کی صہیونی بستیاں راکٹوں سے نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

سرایا القدس کے راکٹ یونٹ نے اسدود، عسقلان، سدیروت اور شمالی غلافِ غزہ کی کئی صہیونی آبادیوں پر بھرپور راکٹ حملے کیے جو فلسطینیوں کے خلاف جاری صہیونی نسل کشی کا جواب تھے۔سرایا القدس کا کہنا تھا کہ یہ حملے قابض اسرائیل کی جانب سے ہمارے نہتے شہریوں پر کیے گئے قتلِ عام کا ردعمل ہیں۔

دوسری جانب قابض اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے داغے گئے تین راکٹوں میں سے دو کو اس کے دفاعی سسٹم نے روکا جبکہ تیسرا ایک کھلی جگہ پر گرا۔اسرائیلی داخلی محاذ نے تصدیق کی ہے کہ عسقلان، نیر عام، ایفیہم اور سدیروت کے علاقوں میں خطرے کے سائرن بجائے گئے جو کہ غلافِ غزہ کے شمالی حصے میں واقع ہیں۔

ادھراسلامی تحریک مزاحمت” حماس” نے قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے گھروں پر بمباری اور عام شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو فاشزم اور وحشیانہ سفاکیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی مجرم بنجمن نیتن یاھو کو ان درندگیوں سے کوئی فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔

بدھ کے روز جاری کردہ ایک اہم بیان میں حماس نے عالمی برادری، عرب ممالک اور مسلم امہ سے مطالبہ کیاکہ وہ فوری طور پر حرکت میں آئیں اور ہر ممکن طریقے سے قابض اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ غزہ میں عام شہریوں کے خلاف جاری اس خونی نسل کشی کو روکا جا سکے۔

حماس نے کہاکہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے فجر سے جاری اندھا دھند بمباری، خاص طور پر شمالی غزہ میں نہتے شہریوں کے خلاف نسل کشی کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ ان حملوں کا ہدف جان بوجھ کر وہ مکانات بنائے گئے جو شہریوں سے بھرے ہوئے تھے۔

حماس کے بیان میں مزید کہا گیاکہ بنجمن نیتن یاھو جو انتقام کی آگ میں جل رہا ہے، سیاسی مفادات کی خاطر معصوم شہریوں کو نشانہ بنا کر اپنے جرائم کی شدت بڑھا رہا ہے تاکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جا سکے۔

حماس نے واضح کیا کہ بین الاقوامی ثالثین جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، نیتن یاھو اس دوران عام شہریوں کے خلاف مزید قتل عام کر رہا ہے یہ جرائم بین الاقوامی قوانین، انسانی اقدار اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

بیان میں اقوام متحدہ، عرب،مسلمان ممالک، دنیا اور تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان جرائم کو روکنے کے لیے فوری عملی اقدامات کریں اور قابض اسرائیلی ریاست کے ان فاشسٹ لیڈروں کو انسانیت کے خلاف جرائم پر انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

فلسطینی وزارت صحت نے ایک نہایت تشویشناک انکشاف کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی 90 فیصد آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جب کہ پینے کے پانی کے نمونوں میں آلودگی کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔

بدھ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں وزارت صحت نے بتایا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے شہریوں میں متعدد بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور یہ صورت حال ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے رہی ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ موسم گرما کی آمد اور درجہ حرارت میں اضافے نے پینے کے صاف پانی کی ضرورت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں لوگ جنگ اور بمباری کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں۔

ان کیمپوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی نے زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔وزارت نے مزید بتایا کہ سیوریج کا نظام بھی بدترین حالت میں ہے۔ گندے پانی کے نکاس کے لیے بنائی گئی جذب گاہیں زیرزمین پانی کے ذخائر کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ غزہ کے 90 فیصد ڈی سیلینیشن (نمک سے پانی صاف کرنے والی) پلانٹس مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں جب کہ 80 فیصد سیوریج پمپنگ اسٹیشنز بھی ناکارہ ہو چکی ہیں۔ اس باعث نہ صرف پینے کا پانی ناقابل استعمال ہو گیا ہے بلکہ سمندر کا پانی بھی بری طرح آلودہ ہو چکا ہے جو ماحولیاتی تباہی کی ایک اور علامت ہے۔

قبل ازیںسربراہ اقوام متحدہ امدادی امور فلیچر نے کہاہے کہ غزہ میں امداد کی تقسیم کا اسرائیلی منصوبہ مکروہ منصوبہ ہے، امداد کی رسائی میں اسرائیل رکاوٹ ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق غزہ میں امداد کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ10 ہفتے سے جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں خوراک، ادویات و دیگر اشیا نہیں پہنچی ہیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بروقت اقدامات کرکے لاکھوں فلسطینیوں کو بچاسکتے ہیں، سخت میکنزم موجود ہے کہ امداد حماس کو نہیں بلکہ عام شہریوں تک پہنچے۔فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی وزیراعظم کی پالیسی شرمناک ہے، غزہ میں 5 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں، یورپی ممالک کو اسرائیل پر پابندیوں میں اضافے پر غور کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ غزہ کے شہری بھوک کا سامنا کررہے ہیں، انہوں نے اسرائیلی محاصرے کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ”ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل غزہ کو نہ صرف فلسطینیوں بلکہ ان کی مدد کرنے والوں کے لیے بھی اجتماعی قبرستان میں تبدیل کر رہا ہے۔تنظیم کی ایمرجنسی ڈائریکٹر کلیر نیکولیہ نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کی کارروائی میں وقت لگے گا۔

غزہ کے باسیوں کے پاس وقت نہیں بچا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امداد اور خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے امداد کی مکمل بندش کر کے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔

یہ نہ صرف امدادی کارکنوں کے کام میں رکاوٹ ہے بلکہ عام شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ فوری طور پر دباؤ ڈال کر امداد کی راہ کھلوائے تاکہ مزید جانیں بچائی جا سکیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ”اونروا” کے سربراہ فِلپ لازارینی نے قابض صہیونی ریاست پر الزام لگایا ہے کہ وہ امدادی سامان اور خوراک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو ایک سنگین جنگی جرم ہے۔

لازارینی نے کہا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے امداد کی بندش کے باعث غزہ میں عوام بھوک اور موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور اگر عالمی برادری نے فوری کارروائی نہ کی تو یہ انسانیت سوز المیہ مزید شدت اختیار کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل امداد کو نہ صرف روکتا ہے بلکہ اسے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے جو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ادھریمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے انکشاف کیا ہے کہ یمنی میزائل فورس نے مقبوضہ فلسطین کے یافا میں واقع بن گوریون ایئرپورٹ کو ایک بیلسٹک سپرسونک میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔

بیان میں بریگیڈیئر جنرل سریع نے تصدیق کی کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر پوری کامیابی سے جا پہنچا جس کے نتیجے میں لاکھوں اسرائیلی شہری خوف سے پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوئے اور ایئرپورٹ پر پروازوں کی آمدورفت مکمل طور پر معطل ہوگئی جو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ کارروائی قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری قتل عام کے ردعمل میں کی گئی اور یہ پیغام ہے کہ بن گوریون ایئرپورٹ پر فضائی سرگرمیوں کی بندش کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے عالمی فضائی کمپنیوں سے اپیل کی کہ وہ بھی مقبوضہ فلسطین کے ہوائی اڈوں خصوصاً بن گوریون ایئرپورٹ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کریں جیسا کہ کچھ ہوائی کمپنیاں پہلے ہی کر چکی ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ عظیم یمنی قوم، فلسطینی عوام کو نسل کشی اور جبری بے دخلی کا شکار دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھے گی جبکہ عرب اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عرب اور اسلامی دنیا کے تمام باضمیر افراد پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی قوم کے ساتھ دینی، اخلاقی اور انسانی سطح پر اپنا فرض ادا کریں۔

بریگیڈیئر جنرل سریع نے اعلان کیا کہ جب تک غزہ پر جارحیت کا خاتمہ اور محاصرہ نہیں ہٹایا جاتا اس وقت تک غزہ کی حمایت میں عسکری کارروائیاں بن گوریون ایئرپورٹ پر فضائی ناکہ بندی اور اسرائیلی بحری آمدورفت پر پابندی جاری رہے گی۔