” فلسطینیوں کے گھر منہدم کریں تاکہ واپس نہ آئیں “

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہر صورت غزہ کی پٹی کو فلسطینیوں سے خالی کرنے کا صہیونی منصوبے پر عمل پیرا رہنے کا عہد کیا ہے۔ عالمی قوانین اور انسانی حقوق سمیت ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں کو پس پشت ڈال کر صہیونی ریاست آگے بڑھنے کے لیے سرگرم ہے۔
ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے موقع پر غزہ میں جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، وہیں اسرائیلی فورسز غزہ میں موت بانٹنے میں شدت لارہی ہیں۔ عبرانی جریدے معاریف نے نیتن یاہو کے حالیہ بند کمرہ اجلاس میں ہونے والی بات چیت کو سامنے لاتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ کی پٹی کو بہرصورت ناقابلِ رہائش بناکر اسے خالی کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ نیتن یاہو نے فوجی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ غزہ کی پٹی میں کسی گھر کو بھی سلامت نہ رہنے دیا جائے، تاکہ فلسطینیوں کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے اتوار کو اجلاس میں ایک مرتبہ پھر غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا منصوبہ زیر بحث لایا ہے، جس پر بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہاہے کہ ہم مزید گھر ڈھائیں گے تاکہ غزہ کے باشندوں کی واپسی کی کوئی جگہ باقی نہ رہے اور وہ واپس نہ آسکیں۔
عبرانی جریدے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے محصور غزہ میں انسانی امداد کی رسائی کو بھی اس سے مشروط کردیا ہے کہ وہ واپس نہ آنے کا وعدہ کریں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے جب دوران اجلاس امریکا کی مخالفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کو نارض کرکے وہ فی الحال تو غزہ میں یہودی کالونیوں کی تعمیر نہیں چاہتے تاہم اہل غزہ کی واپسی کی راہیں مسدود کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوگا۔ جس کے جواب میں ایتمار بن غفیر کی انتہاپسند یہودی جماعت یہودی عوتسما سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن پارلیمان لیمورسون ہارملیخ نے تجویز دی کہ اسرائیل کو امریکا کے یہودیوں کو لاکر غزہ میں بسانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح سے ایک پتھر سے دو چڑیوں کا شکار ممکن ہوسکے گا۔ خیا ل رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا منصوبہ پیش کیا تھا، تاہم مصر اور اُردن نے ان فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کیا تھا جبکہ عالمی سطح پر بھی اس تجویز پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا، جس کے بعد امریکی صدر نے اس تجویز کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی تھی۔
دوسری جانب غزہ کی مقاومتی تنظیم حماس کی جانب سے اپنے قید میں رہنے والے امریکی شہری اسکندر عیدان کی رہائی کے حوالے سے امریکی ادارے کے ساتھ بات چیت ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ مزاحمتی تنظیم جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی دے دی گی ہے، جس پر اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف عوامی سطح پر شدید اشتعال اور غم وغصہ دیکھا جارہا ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر ہائیر لبید نے کہاہے کہ اسکندر عیدان کی رہائی خوش آئند ضرور ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملہ صرف ایک قیدی تک محدود نہ رہے بلکہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں آئے۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے کہا ہے کہ حماس اور امریکی انتظامیہ کے درمیان بات چیت اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم کی بدترین ناکامی ہے۔ معاملات یہاں تک پہنچنا نہیں چاہیے تھے۔ اسرائیل کی دوسری اپوزیشن پارٹی ڈیموکریٹک کے سربراہ ہائیرگولان نے کہاہے کہ صرف امریکی شہریت رکھنے والے قیدی کی رہائی باعث عار ہے۔ ہائیرگولان نے اسرائیلی کے دائیں بازو انتہاپسند پارٹیوں کے اس منصوبے پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت میں شامل انتہاپسند پارٹیوں کا خیال ہے کہ غزہ پر قبضہ کرکے وہ اسے یہودی آباد کار بسانے کے لیے یہودی منصوبے غوش قطیف کا حصہ بنادیں گے۔ یہ محض جنون ہے۔ اس منصوبے سے اسرائیل کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ہوگا اور مزاحمت ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی۔
خیال رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے کوششیں جاری ہیں جس کے پیش نظر امریکی صدر کے ایلچی برائے مشرق وسطی اسٹیفن ویٹکوف اسرائیل پہنچ گئے ہیں، تاہم ان کے پہنچنے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نے کہاہے کہ اسرائیل امریکی قیدی کی رہائی پر جنگ بندی معاہدہ نہیں کرے گا۔ اسرائیلی جریدے اسرائیل ٹوڈے نے لکھاہے کہ اسٹیفن ویٹکوف کے پہنچنے کے بعد اسرائیلی لہجے میں تبدیلی رونما ہونے کا امکان ہے تاہم اسرائیل اس معاہدے میں فریق نہیں ہے جس کے باعث اس کے قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ اگر اسرائیل معاہدے کا حصہ ہوکر شرائط مان لیتا ہے تو ایسے میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کو بھی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کرنی ہوگی۔ تاہم پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کا حماس کے ساتھ کسی جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا، بلکہ صرف امریکی نژاد اسرائیلی قیدی ’عیدان الیگزینڈر‘ کی رہائی کے لیے ایک محفوظ راہ داری کی فراہمی پر بات ہوئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ دیگر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے، جبکہ غزہ میں لڑائی تیز کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔